کتاب: معیشت وتجارت کے اسلامی احکام - صفحہ 43
تاہم اس استثناء کو فیوچر سودوں چسپاں نہیں کیا جا سکتاکیونکہ ان میں قبضہ کی مدت تین دن سے زائد ہوتی ہے اور یہ مدت باقاعدہ طے شدہ ہوتی ہے جبکہ مالکی فقہاء کے نزدیک بھی اگر عقد کے اندر یہ شرط ہو کہ قیمت تین دن کے بعد ادا کی جائے گی تو عقد ختم ہو جاتا ہے۔لہٰذا جو حضرات فیوچر سودوں کو بیع سلم پر قیاس کر کے جائز قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں ان کا موقف درست نہیں ہے۔ بعض حضرات یہ توجیہ کرتے ہیں کہ ایکسچینج انتظامیہ ادائیگی کی ذمہ دار ہوتی ہے اور برو کر کے پاس خریدار کے اکاؤنٹ میں رقم بھی موجود ہوتی ہے لہٰذا حکما یہی سمجھا جائے گا کہ ادائیگی ہو چکی ہے مگر یہ توجیہ صحیح نہیں۔ایک تو اس لیے کہ فروخت کنندہ کو عملا ادائیگی ضرروی ہے کسی تیسرے شخص کے پاس جمع کرا دینا کافی نہیں ہے۔ اور دوسرا اس لیے کہ عموماً برو کر کے پاس پوری رقم جمع نہیں کرائی جاتی بلکہ رقم کا کچھ حصہ جمع کرا کر خریداری شروع کر دی جاتی ہے جبکہ سلم میں مکمل ادائیگی لازمی ہے۔ سودی طریقے اختیار نہ کریں اصل میں تو سود اس فائدے کو کہا جاتاہے جو قرض کے مقابلہ میں شرط اور تعین کے ساتھ لیا جائے یا پھر اس اضافے کو کہتے ہیں جو بیع کے نتیجے میں واجب ہونے والی رقم کی ادائیگی میں تاخیر پر لیا جائے لیکن شریعت محمدی نے خریدو فروخت کی کچھ صورتوں کو بھی سودی کا روبار میں شمارکیا ہے یا سود کی راہ ہموار ہونے کے خدشہ سے انہیں بھی حرام قرار دیا ہے، لہٰذا ان صورتوں سے بھی دور رہنا چاہیے۔وہ صورتیں یہ ہیں۔ 1۔ہم جنس چیزوں کی کمی بیشی کے ساتھ اور ادھا تبادلہ:جب دو ہم جنس اشیاء مثلاً گندم کا گندم کے ساتھ تبادلہ کیا جارہا ہو تو اس میں ددشرطیں ضروری ہیں ایک تو دونوں طرف مقدار بالکل برابر ہو اور دوسرا مجلس میں لین دین نقد ونق‘‘د ہو۔چنانچہ اگر کسی طرف کمی بیشی پائی جائے یا دونوں یا کسی ایک طرف ادھار ہوتو یہ معاملہ رباالفضل’’اضافے والا سود‘‘ کہلاتا ہے جو کہ