کتاب: معیشت وتجارت کے اسلامی احکام - صفحہ 33
" يَأْتِينِي الرَّجُلُ فَيَسْأَلُنِي عَنْ الْبَيْعِ لَيْسَ عِنْدِي مَا أَبِيعُهُ مِنْهُ، ثُمَّ أَبْتَاعُهُ مِنْ السُّوقِ." ’’میرے پاس ایک آدمی آتا ہے وہ مجھ سے ایسی چیز کا سودا کرنا چاہتاہے جو میرے پاس نہیں ہوتی کیا میں اس سے سودا کرلوں پھر وہ چیز بازار سے خرید کر اسے دے دوں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواباً فرمایا: "لا تَبِعْ مَا لَيْسَ عِنْدَكَ" ’’جو (متعین) چیز تیرے پاس موجود نہیں وہ فروخت نہ کر۔‘‘[1] حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کا سوال متعین چیز کی فروخت کے متعلق ہی تھا۔متعین کا معنی ہے کسی مخصوص پلاٹ یا گاڑی وغیرہ کا سودا کرنا مثلاً یوں کہنا کہ میں فلاں سکیم کا فلاں نمبر پلاٹ آپ کو اتنے میں بیچتا ہوں جبکہ وہ اس کی ملکیت نہ ہو، یہ ناجائز ہے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب سے واضح ہے۔لیکن اگرتعین کی بجائے صرف مخصوص صفات بیان کی جائیں مثلاً یوں کہا جائے کہ میں تمھیں اتنی مدت بعد ان صفات کی حامل فلاں چیز مہیا کرنے کی ذمہ داری لیتا ہوں تو یہ صورت جائز ہے بشرط یہ کہ مکمل قیمت پیشگی ادا کردی جائے، اس کو بیع سلم کہتے ہیں۔مکمل قیمت کی پیشگی ادائیگی لازمی شرط ہے اس کے بغیر یہ جائز نہیں ہوسکتی۔ ملکیت سے قبل فروخت کی بعض صورتیں ٭ بعض ہاؤسنگ اسکیمیں اپنی ملکیتی زمین سے زیادہ تعداد میں پلاٹس کی فائلیں فروخت کردیتیں ہیں مثلاً ابھی تک اسکیم کے پاس زمین صرف ایک ہزار پلاٹس کی موجود ہے لیکن فائلیں دو ہزار پلاٹس کی بیچ دی جاتی ہیں اور ان کا خیال یہ ہوتا ہے کہ بقیہ زمین میں خرید
[1] ۔سنن نسائی:باب بیع ما لیس عند البائع۔