کتاب: معیشت وتجارت کے اسلامی احکام - صفحہ 31
کی تو گنجائش ہے لیکن بہت زیادہ فرق درست نہیں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قلبی خوشی کی تاکید فرمائی ہے اور یہ بات طے ہے کہ مجبور شخص خوشدلی سے غیر معمولی کم ریٹ پر بیچنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ہمارے ہاں مجبور شخص سے سستے داموں خریدنے کوترجیح دی جاتی ہے یہ ناپسندیدہ رویہ ہے جس کی اصلاح ہونی چاہیے۔ البتہ بعض صورتوں میں حکومت یا کوئی مجاز اتھارٹی مالک کو اس بات پر مجبور کرسکتی ہے کہ وہ اپنی چیز فروخت کرے۔ ٭پہلی صورت یہ ہے کہ مقروض اپنے ذمے قرض ادا نہ کررہا ہو اور اس کے پاس نقد رقم بھی موجود نہ ہو تو عدالت اس کو اپنی جائیداد فروخت کرکے قرض ادا کرنے کا حکم دے سکتی ہے۔اگر وہ عدالتی حکم کے باوجود لیت ولعل سے کام لے تو عدالت قرض خواہ کی دادرسی کے لیے خود بھی اس کی جائیداد مارکیٹ ریٹ پر فروخت کرسکتی ہے۔ ٭دوسری صورت یہ ہے کہ کسی شخص نے جائیداد اور رہن رکھ کر قرض لے رکھا ہو اور وہ متعدد مرتبہ کی یاد دہانی کے باوجود ادائیگی نہ کررہا ہو تو قرض خواہ رہن شدہ جائیداد فروخت کرکے اپنا حق وصول پاسکتا ہے، چاہے مقروض اس پر راضی نہ بھی ہو بشرط یہ کہ عدالت اور قرض خواہ منصفانہ قیمت پر بیچنے کو یقینی بنائیں، اپنی رقم کھری کرنے کے لالچ میں کوڑیوں کے بھاؤ بیچنے کی اجازت نہیں ہے۔ ٭تیسری صورت جہاں مالک کو اپنی اشیاء فروخت کرنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے وہ ہے جب غذائی اشیاء کی قلت ہو اور کچھ لوگ ذخیرہ اندوزی کررہے ہوں تو اس صورت میں حکومت کو یہ اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ تاجروں کو ذخیرہ کی گئی اشیاء فروخت کرنے کا حکم دے، اگر وہ تعمیل نہ کریں تو حکومت ان کی مرضی کے خلاف خود بھی مارکیٹ ریٹ پر فروخت کرسکتی ہے، جیسا کہ الموسوعۃ الفقہیۃ میں ہے۔ "إذا خيف الضرر علي العامة اجبريل أخذ منه مااحتكره وباعه