کتاب: معیشت وتجارت کے اسلامی احکام - صفحہ 24
’’ بیع کامعنی ہے قیمت کے عوض چیز کی ملکیت دوسرے کی طرف منتقل کرنا۔‘‘[1]
یہ تعریف اس ا مر کا ثبوت ہے کہ اگرچہ قرض میں بھی انتقال ملکیت ہوتا ہے تاہم اس کو بیع نہیں کیا جاسکتا کیونکہ قرض کا مقصد قرض لینے والے کے ساتھ نیکی کرنا ہے نہ کہ قیمت وصول پانا۔واضح رہے بیع میں ملکیت کی منتقلی دائمی ہونی چاہیے۔
بیع اور سود میں فرق
بعض سودی ذہن کے حامل لوگ بیع اور قرض کو گڈ مڈ کر دیتے ہیں حالانکہ دونوں میں اصولی فرق ہے جو درج ذیل ہے۔
1۔بیع میں فروخت کنندہ کسی ایسی شئے پر نفع لیتا ہے جو اس نے اپنا سرمایہ اور محنت خطرے میں ڈال کر حاصل یا پیدا کی ہوتی ہے جبکہ اس کے برخلاف سود میں سود خور صرف اپنا پیسہ جو محض ذریعہ تبادلہ ہے قرض دے کر بغیر کسی محنت، مشقت اور نقصان کی ذمہ داری کے اس پر طے شدہ منافع لیتا ہے۔
2۔بیع میں بیچی گئی چیز کی سپردگی اور قیمت کی ادائیگی کے بعد فریقین کے درمیان معاملہ ختم ہو جاتا ہے، ان کے مابین کوئی لین دین باقی نہیں رہتا جبکہ سود میں قرض لی گئی رقم کی واپسی لازمی ہوتی ہے۔
3۔بیع میں خریدار کا فائدہ یقینی اور متعین ہوتا ہے کہ اس نے خریدی گئی چیزسے کسی نہ کسی صورت میں فائدہ اٹھانا ہے لیکن قرض پر سود دینے والے کا فائدہ غیریقینی اور غیر متعین ہوتا ہے۔اگرقرض کی رقم کاروبار میں لگائی ہو تو نقصان کا احتمال بھی ہوتاہے۔چنانچہ بیع بائع اور مشتری دونوں کے فائدہ پر مبنی ہے جبکہ سود میں صرف قرض دینے والے کا فائدہ ہوتا ہے۔
4۔خریدو فروخت میں صرف ایک ہی مرتبہ منافع لیا جا تا ہے لیکن سود میں جب تک قرض کی رقم
[1] ۔فتح الباري:ج 4 ،ص 364.