کتاب: معیشت وتجارت کے اسلامی احکام - صفحہ 23
اگر خریدوفروخت کا سلسلہ نہ ہوتا تو نظام حیات درہم برہم ہوجاتا، انسانیت اضطراب اور بے چینی میں مبتلا ہوجاتی، انسان ضروریات زندگی کےحصول کے لیے یا تو چوری اور لوٹ مار کا سہارا لیتا جس سے نہ صرف لوگوں کے اموال خطرات میں پڑ جاتے بلکہ خونریزی کا بازار بھی گرم ہوتا یا دوسروں کے سامنے دست سوال دراز کرنے پر مجبور ہوتا جو کہ باعث ذلت ہے اور بسا اوقات مالک معاوضہ کے بغیر دینے پر آمادہ بھی نہیں ہوتا، لہذا اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر یہ خاص لطف وکرم فرمایا کہ انہیں اپنی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے نہ صرف خریدوفروخت کی اجازت مرحمت فرمائی بلکہ اس کے متعلق احکام وہدایات دے کر ثواب اور اپنے قرب کا ذریعہ بنادیا ہے۔
بیع کاتعارف
اس سے پیشتر کہ ہم خریدوفروخت کے متعلق اسلامی احکام ذکر کریں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ بیع کی حقیقت واضح کردی جائے کیونکہ کتب حدیث میں لین دین کے معاملات اور ان سے متعلقہ احکام بالعموم کتاب البیوع کے تحت ذکر ہوتے ہیں۔قرآن حکیم نے بھی ان معاملات کے لیے یہی اصطلاح استعمال کی ہے اور ہمارے معاشرے میں بھی خریدوفروخت کے معاہدے بیع نامہ کے عنوان سے ہی تحریر ہوتے ہیں۔
بیع کا معروف معنی ہے’’بیچنا‘‘لیکن یہ خریدنے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمانہ قدیم میں اشیاء کالین دین اشیاء کے بدلے ہی ہوتا تھا یعنی بارٹر سسٹم رائج تھا اس طریقہ میں ہرشخص گویا فروخت کنندہ بھی ہوتا تھا اور خریدار بھی، اس سے بیع کے لفظ میں دونوں معنی پیدا ہوگئے۔
علمائے شریعت کے نزدیک لین دین کے وہ تمام معاملات جو کسی معاوضہ کی اساس پر طے پاتے ہیں بیع کہلاتے ہیں اس لیے بیع کا شرعی مفہوم یوں بیان کیا جاتا ہے۔
" والبيع نقل ملك إلى الغير بثمن "