کتاب: معیشت وتجارت کے اسلامی احکام - صفحہ 211
شدید پریشانی میں مبتلا ہوگئے۔‘‘ اس کی ایک مثال ہمارے ہاں بھی ملتی ہے۔وہ یہ کہ قیام پاکستان کے بعد کچھ عرصہ تک ایک روپے میں چونسٹھ پیسے شمار ہوتے تھے مگر جب اعشاری نظام آیا تو حکومت نے اعلان کردیاکہ اب ایک روپے میں سوپیسے ہوں گے، یعنی پہلے ایک پیسہ روپے کا چونسٹھواں حصہ تھا اور اب سواں حصہ بن گیا۔گویا اس کی قیمت میں کمی واقع ہوگئی، اب فرض کریں کہ ایک شخص نے اس تبدیلی سے قبل چونسٹھ پیسے قرض لیے تھے توکیا وہ تبدیلی کے بعد چونسٹھ پیسے یہ واپس کرے گا یاکہ سو پیسہ؟ امام ابو یوسف رحمہ اللہ کہتے ہیں چونکہ اس نے ایک روپے کی ریزگاری قرض لی تھی جواب سوپیسہ بن چکی ہے لہذا وہ سو پیسہ واپس کرے گا۔اس سے ان حضرات نے یہ سمجھ لیا کہ امام ابویوسف رحمہ اللہ بھی اس بات کے قائل ہیں کہ قرض کی ادائیگی کے وقت کرنسی کی قوت خرید میں کمی کا ازالہ مقروض کی ذمہ داری ہے حالانکہ ان کا یہ منشاء نہیں ہے۔ اس کے علاوہ یہاں یہ نکتہ بھی ذہن نشین رہنا چاہیے کہ امام ابویوسف رحمہ اللہ جس طرح سکوں کی قیمت میں کمی کا اعتبار کرتے ہیں اس طرح اضافے کا بھی اعتبار کرتے ہیں مگر اشاریہ بندی صرف اسی وقت عمل میں لائی جاتی ہے جب اشیاء کی قیمتیں بڑھ رہی ہوں، قیمتوں میں کمی کی صورت میں آنکھ بند کرلی جاتی ہیں کیونکہ اس صورت میں کوئی شخص اپنی قرض دی گئی رقم سے کم قبول کرنے پر راضی نہیں ہوگا۔اگرامام ابویوسف رحمہ اللہ کے قول کو ہی دلیل بنانا ہے تو انصاف کا تقاضا ہے کہ اس پر دونوں صورتوں میں عمل کیاجائے۔