کتاب: معیشت وتجارت کے اسلامی احکام - صفحہ 21
قوموں کی معاشی خوشحالی کا تمام تر دارومدار تجارت ہی پر ہوتا ہے اور کسی قوم کی اقتصادی ترقی میں اس کا وہی کردار ہوتا ہے جو انسانی جسم میں خون کا ہے اس لیے قرآن حکیم میں نماز جمعہ کے بعد فارغ بیٹھنے کی بجائے تجارت کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ ﴿ فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلَاةُ فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللّٰهِ وَاذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِيرًا لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴾ ’’پھر جب نمازی پوری ہوجائے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو اور اللہ کو بکثرت یاد کرو تاکہ تم فلاح پاجاؤ۔‘‘[1] یہاں بھی اللہ کا فضل تلاش کرو سے مراد کسب مال ہے جس میں خرید وفروخت بھی شامل ہے گویا تجارت محض دنیاوی کام نہیں جیسا کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں بلکہ یہ اللہ کا فضل تلاش کرنے کے مترادف ہے۔اس کا مطلب یہی ہے کہ اگر کاروبار میں اسلامی احکام کو ملحوظ رکھا جائے تو یہ کاروبار بھی اللہ کے قرب کا ذریعہ بن جاتا ہے۔اس کے علاوہ قرآن حکیم میں دوسرے مقامات پر بھی تجارت اور مال کو اللہ کے فضل سے تعبیر کیا گیا ہے۔ سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے بعثت سے قبل خود بھی تجارت کی اور صحابہ کو بھی اس کی ترغیب دیتے چنانچہ اکثر وبیشتر صحابہ کرام تجارت ہی کرتے تھے۔احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں تجارت کو بہت معزز پیشہ قرار دیاگیا اور دیانت دار تاجر کا بڑا مرتبہ تسلیم کیا گیا ہے۔ایک حدیث میں سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے سچے اور دیانت دار کو جنت میں انبیاء،صدیقین اور شہدا کی رفاقت کی بشارت سنائی ہے۔ "التَّاجِرُ الصَّدُوقُ الأَمِينُ مَعَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ" ’’راست باز اور امانت دار تاجر انبیاء،صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا۔‘‘[2]
[1] ۔الجمعة :10. [2] ۔سنن ترمذی باب ماجاء في التحار وقال هذا حديث حسن۔