کتاب: معیشت وتجارت کے اسلامی احکام - صفحہ 208
دیتا ہے اور ہر بچت کار کی غرض بھی علیحدہ علیحدہ ہوتی ہے، کوئی پلاٹ خریدنے کےلیے بچت کرتا ہے، کوئی سونا خریدنا چاہتا ہے اور کوئی مکان تعمیر کرنا۔شاذو نادر ہی کوئی ایسا بچت کار ہوگا جس کے پیش نظر اشیاء کی ٹوکر ہو۔سب بچت کاروں کے لیے اشیاء کی ٹوکری کو اساس بنانا مضحکہ خیز ہے۔یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ صرف قیمتیں بڑھنے کی صورت میں اشاریہ بندی کی جاتی ہے کمی کی صورت میں نہیں کی جاتی۔کیونکہ اس پر عمل کرنے کو تیار نہیں ہوگا۔اگر اشاریہ بندی عدل کا تقاضا ہے تو اسے تفریط زر کی صورت میں بھی اختیار کیا جائے۔ 4۔اشاریہ سے قیمتوں کا تعین صرف ایک اندازہ اور تخمینہ ہوتا ہے جبکہ قرض کی واپسی کو اندازے اور تخمینے سے مشروط کرنا جائز نہیں۔ 5۔ہمارے دین میں بلاسود قرض دینا ایک نیکی ہے جس کا آخرت میں قرض دہندہ کو اجر ملے گا۔اور اگر روپے کی قدر میں کمی کا ازالہ مقروض کی ذمہ داری ہوتو قرض نیکی نہیں رہے گا۔ یہی وہ خرابیاں ہیں جن کی بنا پر یہ کہا جاتا ہے کہ شرعی اعتبار سے قرضوں کی اشاریہ بندی کی سکیم قابل عمل نہیں۔پاکستان کی اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی اسے خلاف شرع قراردیا ہے۔دیکھیے:’’رپورٹ بلا سود بنکاری‘‘ص22۔ اس کے علاوہ اگر معاشی نقطہ نظر سے بھی دیکھا جائے تو اشاریہ بندی کی سکیم بے فائدہ ہے کیونکہ یہ طے شدہ ہے کہ تمام شعبوں میں نفع پذیری کی شرح یکساں نہیں ہوتی۔جن شعبوں میں تو منافع کی شرح عمومی سطح کی قیمتوں کے اضافے کے برابر یا زائد ہوگی وہ فائدے میں رہیں گے لیکن وہ شعبے جہاں قیمتوں میں اضافہ کے تناسب سے نفع حاصل نہیں ہوتا خسارے میں رہیں گے جیسے صنعتی شعبہ ہے یہاں بعض حالات میں عمومی سطح کے افراط زر کی شرح کے تناسب سے نفع نہیں ہوتا۔اسی طرح زراعت کا شعبہ بھی متأثر ہو سکتا ہے کیونکہ زرعی اجناس کی قیمتیں بالعموم حکومت خود طے کری ہے یا پھر بین الاقوامی طلب ورسد کی بنیاد پر طےہوتی ہیں۔اسی طرح اگر افراط زر کی شرح منافع کی شرح سے زائد ہوگی تو اشاریہ بندی کی وجہ سے شراکت کی بنیاد پر سرمایہ