کتاب: معیشت وتجارت کے اسلامی احکام - صفحہ 207
اس کاجواب یہ ہے کہ قرض کی واپسی میں شرعاً عددی برابری قابل لحاظ ہے نہ کہ قیمت ومالیت کا۔مقدار میں کوئی ابہام نہیں ہے۔اس کے برعکس اشاریہ بندی میں یہ قطعاً طے نہیں ہوتا ہے کہ بوقت ادائیگی قیمت ومالیت کیا ہوگی۔ 3۔ اس میں ناانصافی کا پہلو بھی پایا جاتا ہے وہ اس طرح کہ ماہرین معیشت کے نزدیک کرنسی کی قدر میں کمی کے پیچھے متعدد عوامل کا مجموعی عمل کار فرما ہوتا ہے۔ماہرین کے نزدیک ان عوامل میں قرض دینا شامل نہیں، اب قرض گیر کو ایک ایسے عمل کا ذمہ دار ٹھہرانا جس کا وہ سبب نہیں بنا کہاں کا انصاف ہے؟۔ اشاریہ بندی کے قائلین اس کا جواب یہ دیتے ہیں ہیں کہ جب کسی کے ذمہ کوئی ادائیگی ہو اور اس دوران حکومت کرنسی کو منسوخ کردے تو امام ابو یوسف رحمہ اللہ حنبلی فقہاء کے راجح اور مالکیہ کے غیر مشہور مسلک کے مطابق مقروض کی طرف سے اسی کرنسی میں ادائیگی درست نہیں بلکہ اس قیمت کی ادائیگی واجب ہوگی جو تنسیخ زر کی تاریخ پر اس کرنسی میں بنتی تھی جس کی اساس پر معاہدہ ہوا تھا۔[1] حالانکہ کرنسی کی تنسیخ میں مقروض کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔لیکن ان فقہاء نے محض اس لیے کہ جب یہ نقص واقع ہوا تھا تو وہ مقروض کے قبضہ میں تھی اس کو ذمہ دار ٹھرایا ہے۔اسی طرح اگرچہ مقروض کرنسی کی قدر میں کمی کا سبب نہیں مگر اس کا ازالہ اس کی ذمہ داری ہے۔کیونکہ جب کمی واع ہوتی ہے تو وہ اس کے قبضہ میں ہوتی ہے۔ لیکن اگر گہری نظر سے دیکھا جائے تو اس استدلال کی کمزوری بالکل واضح ہے کیونکہ ان فقہاء نے اس صورت میں قیمت کا اعتبار اس بنا پر کیا ہے کہ معاہدے کے دن رائج کرنسی منسوخ ہونے کی وجہ سے مثل سے ادائیگی ممکن نہیں رہی۔اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کسی طور پر درست نہیں کہ کرنسی کی قدر میں کمی کا ازالہ مقروض کی ذمہ داری ہے۔ اشاریہ بندی میں نا انصافی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ انسان عموماً پس انداز رقم ہی بطور قرض
[1] ۔الموسوعة الفقهية الكويتية ج 21، ص 66 مادة دين۔