کتاب: معیشت وتجارت کے اسلامی احکام - صفحہ 206
اشاریہ بندی کے حامی اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ شریعت نے قرض کی واپسی کے حوالے جس برابری کا تقاضا کیا ہے اس سے ظاہری برابری مقصود نہیں بلکہ قیمت ومالیت اورصفت و منفعت کے لحاظ سے برابری مراد ہے۔لہذا قرض دار جو زائد روپے واپس کررہا ہے وہ اضافہ نہیں ہے بلکہ اصل میں وہی مالیت ادا کررہا ہے جو اس نے لی تھی۔ لیکن اگر غور کیا جائے تو یہ جواب درست نہیں اس لیے کہ شرعاً زر کے لین دین اور جنس کے لین دین کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔اگر کسی شخص نے چالیس کلو گند م ادھار لی ہے تو وہ اتنی مقدار ہی واپس کرے گا خواہ اس عرصہ میں اس کی قیمت میں کتنا فرق آچکا ہو۔اسی طرح اگر زر کی کوئی خاص مقدار قرض لی گئی ہو تو وہی مقدار واپس کی جائے گی خواہ اس عرصہ میں اشیاء وخدمات کے مقابلہ میں اس کی قدر میں کتنی تبدیلی واقع ہوچکی ہو یعنی قرض کی واپسی میں مقدار کا اعتبارہے نہ کہ مالیت اور قیمت کا۔یہی وجہ ہے تمام فقہاء اس بات پر متفق ہیں کہ اضافے کی شرط سے عقد قرض فاسد ہوجاتاہے خواہ اضافہ مقدار میں ہو کہ مقروض لئے گئے مال سے زائد واپس کرے، یاکسی دوسرے مال سے ہدیہ کی صورت میں ہو یا کوالٹی میں کہ قرض گیر قرض لی گئی چیز سے عمدہ واپس کرے۔اس قسم کا ہر اضافہ سودشمار ہوتا ہے۔[1] اس كے ربا ہونے کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ عہد نبوی میں قرض کا لین دین بھی ہوتا تھا اور اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ بھی،مگر ہمیں ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ فلاں قرض دہندہ نے اضافی رقم کا مطالبہ کیا تھا۔ 2۔ مقروض نے ایک ہزار کے بدلے کتنے روپے اضافی واپس کرنے ہیں اشاریہ بندی میں اس کاتعین نہیں ہوتا۔یہ غرر(Uncertainty) ہے جو مالی معاہدوں میں ناجائز ہے۔ اشاریہ بندی کے قائلین کا موقف ہے کہ غرر تو اشاریہ بندی نہ ہونے سے پیدا ہوتا ہے کیونکہ اس صورت میں فریقین کو یہ خبر نہیں ہوتی کہ بوقت ادائیگی کا غذی نوٹ کی قوت خرید کیا ہوگی۔
[1] ۔الموسوعة الفقهية الكويتية ج 33 ،ص 130۔