کتاب: معیشت وتجارت کے اسلامی احکام - صفحہ 205
اس کا اصل حل تو یہی ہے کہ حکومت افراط زر کے عوامل دور کر کے کرنسی کی قدر میں استحکام پیدا کرے لیکن بعض حلقوں کی جانب سے یہ تجویز بھی پیش کی جاتی ہے کہ امدادی قدم کے طور پر قرضوں کو قیمتوں کے اشاریہ سے منسلک کردیا جائے تاکہ اس کے مضر اثرات پر قابو پایا جا سکے اور قرض دہندگان کے سرمایہ کو پہنچنے والے نقصان کا ازالہ ہو سکے۔یوں قرض دہی کا جذبہ بھی پروان چڑھتا رہے گا۔ اشاریہ کہ مختصر اور عام فہم تعریف یوں ہے۔ ’’ایسا نمبر جس سے یہ علم ہو کہ گردش ایام سے قیمتوں، تنخواہوں یا کسی دوسرے معاشی پیمانے میں کتنا تغیر واقع ہوا ہے اشاریہ کہلاتا ہے۔‘‘ اشاریہ بندی کے لیے’’صارف کی اشیاء کی ٹوکری‘‘( Goods Basket Of Consumers) جس میں روز مرہ کے استعمال کی اہم اشیاء اور اجرتیں شامل ہوتیں ہیں کو بنیاد بنایا جاتا ہے۔اس کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ مالی سال کے شروع اور آخر میں اس ٹوکری میں شامل اشیاء و خدمات کی قیمتوں کا جائزہ لیا جاتا ہے کہ ان میں کتنا اضافہ ہوا ہے، پھر جس تناسب سے ان کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہوتا ہے اسی تناسب سے کرنسی کی قوت خرید میں کمی تصور کی جاتی ہے۔اس کا مقصد مؤجل ادائیگیوں کو مستحکم کرنا ہوتا ہے تاکہ حق دار نقصان نہ اٹھائیں۔ اشاریہ بندی کے اس طریقہ کار کے مطابق قرضوں کی اشاریہ بندی کا مطلب ہوگا کہ مقروض قرض کی ادائیگی کے وقت اشیاء و خدمات کی قیمتوں میں اضافے کے تناسب سے زائد رقم ادا کرے۔ان حضرات کے نزدیک یہ اس مسئلے کا بہترین حل ہے اس کے بغیر نہ تو معاملات میں عدل کے تقاضے پورے کی جاسکتے ہیں اور نہ ہی استحصال کا خاتمہ ممکن ہے۔لیکن اگر اس کا تحقیقی اورتجزیاتی جائزہ لیا جائے تو اس میں دج ذیل قباحتیں نظر آتیں ہیں۔ 1۔ اس میں ربا کا پہلو پایاجاتا ہے کیونکہ اس میں دی گئی رقم کے عوض زائد واپس کرنے کی شرط ہوتی ہے، شرعی لحاظ سے قرض میں اس قسم کی شرط سود کے زمرہ میں آتی ہے۔