کتاب: معیشت وتجارت کے اسلامی احکام - صفحہ 20
اسلام کی نگاہ میں معیشت وتجارت کی حیثیت
اسلام جس طرح دینی، روحانی اور اخلاقی ہدایات کا معلم ہے اسی طرح معاشی خوشحالی کا بھی داعی ہے اس لیے وہ مالی فوائد،تجارتی اور معاشی سرگرمیوں کو بڑی اہمیت دیتا ہے۔چنانچہ قرآن حکیم اور احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں بڑے شوق آفرین انداز میں خریدوفروخت کے ذریعے کسب مال کی ترغیب دی گئی ہے۔قرآن حکیم نے متعدد مقامات پر تجارت کے ذریعے حاصل ہونے والے فوائد کو اللہ کا فضل قراردیا ہے۔حج کے معاشی اور تجارتی پہلو کاتذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:
﴿لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ فَإِذَا أَفَضْتُمْ مِنْ عَرَفَاتٍ فَاذْكُرُوا اللّٰهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ وَاذْكُرُوهُ كَمَا هَدَاكُمْ وَإِنْ كُنْتُمْ مِنْ قَبْلِهِ لَمِنَ الضَّالِّينَ﴾
’’تم پر کوئی گناہ نہیں کہ تم(تجارت کے ذریعے) اپنے رب کا فضل تلاش کرو۔پھر جب تم عرفات سے واپس آؤ تو مشعر حرام(مزدلفہ میں ایک پہاڑی) کے پاس اللہ کو یاد کرو۔اور اس کو اس طرح یاد کرو جس طرح اس نے تمھیں ہدایت کی ہے بلاشبہ اس سے پہلے تم ناواقف تھے۔‘‘[1]
حج کے دنوں میں جب سارے عرب سے لوگ مکہ مکرمہ میں حاضر ہوتے تو بازار مال تجارت سے بھر جاتے اور خریدوفروخت کا تانتا بندھا رہتا جیسا کہ آج کل بھی ہوتا ہے۔بعض مسلمان احتیاط کے پیش نظر دوران حج تجارت سے اجتناب کرتے تھے۔اللہ تعالیٰ نے ان کی غلط فہمی دور کرنے کے لیے یہ آیت نازل فرمائی۔رب کے فضل سے مراد یہاں تجارت اور کاروبار ہے یعنی دوران حج مالی، تجارتی اور معاشی فوائد حاصل کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے کیونکہ یہ اللہ کا فضل تلاش کرنے کے مترادف ہے بشرط کہ حج کے مناسک متأثر نہ ہوں۔
[1] ۔البقرۃ: 198۔