کتاب: معیشت وتجارت کے اسلامی احکام - صفحہ 195
کی تائید شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے ان الفاظ سے بھی ہوتی ہے۔ "وأما الدرهم والدينار فما يعرف له حد طبعي، ولا شرعي، بل مرجعه الى العادة والاصطلاح، وذلك لأنه في الأصل لا يتعلق المقصود به، بل الغرض أن يكون معيارًا لما يتعاملون به، والدراهم والدنانير لا تقصد لنفسها، بل هي وسيلة إلى التعامل بها، ولهذا كانت أثمانًا بخلاف سائر الأموال، فإن المقصود الانتفاع بها نفسها، فلهذا كانت مقدرة بالأمور الطبعية، أو الشرعية، والوسيلة المحضة التي لا يتعلق بها غرض، لا بمادتها، ولا بصورتها يحصل بها المقصود كيف ما كانت" ’’اس کا خلاصہ یہ ہے کہ درہم و دینار کی کوئی ذاتی اور شرعی تعریف نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق عرف اور اصلاح سے ہے کیونکہ درہم و دینار بذات خود مقصود نہیں ہوتے بلکہ یہ باہمی لین دین کا ذریعہ ہیں اسی لیے یہ قیمت شمار ہوتے ہیں چونکہ باقی اموال سے فائدہ اٹھانا مقصود ہوتا ہے اس لیے ان کی یہ حقیقت نہیں ہے۔وہ ذریعہ جس کے مادہ اور صورت سے کوئی غرض وابستہ نہ ہو وہ جیسا بھی اس سے مقصود حاصل ہو جاتا ہے۔‘‘[1] چونکہ دلائل کے لحاظ سے یہ نقطہ نظر قوی ہے اور اس پر کئے گئے اعتراضات بھی زیادہ وزنی نہیں اس لیے دور حاضر کے علماء کی اکثریت،بیشتر مفتیان کرام کے فتاوی اور اہم فقہی اداروں کی قراردادیں اسی کے حق میں ہیں۔ جسٹس علامہ عبداللہ بن سلیمان منیع کی بھی یہی رائے ہے۔[2] سعودی کبار علماء کی مجلس نے بھی اس کوترجیح دی ہے۔[3]
[1] ۔مجموع الفتاوي ج 19 ص 251۔252۔ [2] ۔كاغذی کرنسی کی تاریخ ۔ارتقاء ۔شرعی حيثيت ص:90۔ [3] ۔المجلة البحوث الاسلامية ع 1،ص 221۔