کتاب: معیشت وتجارت کے اسلامی احکام - صفحہ 194
روایت کہ انھوں نے اپنی لونڈی سے کہا: ’’اس کے فلوس خرید لو۔‘‘ سے بھی یہ اشارہ نکلتا ہے کہ صحابہ کے ہاں دھاتی سکے سامان شمار ہوتے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فقہاء احناف کے نزدیک دھاتی سکے زر ہیں اسی لیے وہ ان میں زکوۃ بھی واجب قراردیتے ہیں لیکن امام ابو حنیفہ اور امام ابو یوسف رحمہ اللہ کے نزدیک متعاقدین دھاتی سکوں کو متعین کر کے ان کی زری حیثیت ختم کر سکتے ہیں اس صورت میں یہ سامان کے حکم میں ہوتے ہیں اور ان حضرات کے نزدیک کمی بیشی کے ساتھ ان کا تبادلہ بھی صحیح ہوتا ہے۔ ان شواہد سے ثابت ہوتا ہے کہ فقہاء کی نظر میں دھاتی سکے(فلوس)یا تو زر ہی نہیں یا پھر ناقص زر ہیں اسی لیے وہ ان سے زر کا وصف ختم کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔جو صورت بھی ہو۔ بہر حال کرنسی نوٹوں کو ان پر قیاس نہیں کیا جا سکتا کیونکہ نہ تو دھاتی سکوں کی طرح ان میں سامان کا پہلو غالب ہے یہ تو محض کاغذ کے ٹکڑے ہیں ان کی جو حیثیت بھی ہے وہ ان کی پشت پر حکومتی ضمانت کی وجہ سے ہی ہے اور نہ ہی متعاقدین کو ان کی زری حیثیت کالعدم کرنے کا اختیار ہے کیونکہ قانونی زر ہیں۔ 5۔اس سلسلہ میں پانچویں اور آخری رائے یہ ہے کہ نوٹ سونے چاندی کی طرح مستقل زرہے کیونکہ نوٹوں میں زر کی تمام صفات پائی جاتیں ہیں۔قیمتوں کا پیمانہ اور قابل ذخیرہ بھی ہیں اور لوگ ان پر اعتماد بھی کرتے ہیں شرعی اعتبار سے یہی زر کی حقیقت ہے جیسا کہ ہم شروع میں امام مالک رحمہ اللہ کا یہ قول نقل کر آئے ہیں۔ ’’اگر لوگ اپنے درمیان چمڑوں کے ذریعے خریدو فروخت کو رائج کردیں یہاں تک کہ وہ چمڑے ثمن اور سکہ کی حیثیت اختیار کر جائے تو میں سونے چاندی کے بدلے ان چمڑوں کو ادھارفروخت کرنا پسند نہیں کروں گا۔‘‘ اس کا مطلب ہے کہ کسی بھی چیز کو خواہ وہ چمڑا ہی کیوں نہ ہو بطورزر اختیار کیا جا سکتا ہے اس