کتاب: معیشت وتجارت کے اسلامی احکام - صفحہ 192
بہت کمزور ہے۔‘‘[1] 4۔نوٹ کی شرعی حیثیت کے متعلق چوتھی رائے یہ ہے کہ نوٹ دھاتی سکوں(فلوس) کی طرح اصطلاحی زر ہیں جیسا کہ مولانا احمد خاں بریلوی نے لکھا ہے۔ "ما هو سلعة بالأصل وثمن بالاصطلاح كالفلوس... الي ان قال إذا علمت هذا فالنوط هو من القسم الرابع سلعة بأصله لأنه قرطاس وثمن بالاصطلاح لأنه يعامل به معاملة الاثمان" ’’مال کی چوتھی قسم وہ ہے جو اصل میں تو مال ہے لیکن اصطلاحی لحاظ سے زر ہے جیسے دھاتی سکے ہیں....جب یہ معلوم ہو گیا تو سنونوٹ کا تعلق چوتھی قسم سے ہے جو حقیقت میں سامان ہے کیونکہ یہ کاغذ ہے اور اصطلاحی طور پر زر ہے کیونکہ اس سے زر جیسا معاملہ کیا جاتا ہے۔‘‘[2] لیکن یہ رائے بھی قوی معلوم نہیں ہوتی کیونکہ اہل علم کے ہاں دھاتی سکوں میں زر کی بجائے سامان کا پہلو غالب ہے یہی وجہ ہے کہ جمہور فقہاء نہ تو کمی بیشی کے ساتھ ان کا تبادلہ مکروہ سمجھتے ہیں اور نہ ہی ان کو شراکت و مضاربت میں راس المال بنانے کی اجازت دیتے ہیں۔نیز ان میں زکوۃ بھی اسی صورت واجب قراردیتے ہیں جب ان کو فروخت کر کے نفع کمانا مقصود ہو۔جیسا کہ ’’الموسوعۃ الفقہیہ‘‘میں ہے: "الأصح عند الشافعية و الصحيح عند الحنابلة وهو قول الشخين مسن الحنفية وقول عند المالكية: أنها ليست أثمانا ربوية و أنها كالعروض" ’’امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ،امام ابو یوسف اور مالکی فقہاء کا قول،حنابلہ کا صحیح مسلک اور شافعیوں
[1] ۔كاغذی کرنسی کی تاریخ ۔ارتقاء ۔شرعی حيثيت ص:61۔ [2] ۔كفل الفقية الفاهم في أحكام قرطاس الدراهم ص 33۔