کتاب: معیشت وتجارت کے اسلامی احکام - صفحہ 191
کرایہ لیا جا سکتا ہے۔چونکہ کرنسی کو جنس قرار دینے سے سود بھی جائز قرارپاتا ہے اس لیے عصر حاضر کے اہل علم اس نظریہ کی تائید نہیں کرتے۔
3۔تیسری رائے یہ ہے کہ نوٹ سونے، چاندی کا متبادل ہیں۔اگر اس کے پیچھے سونا ہو تو سونے اور اگر چاندی ہو تو چاندی کا متبادل ہو گا۔جسٹس ڈاکٹر عبداللہ بن سلیمان منیع لکھتے ہیں۔
’’اس نظریہ کے قائلین کی دلیل یہ ہے کہ قیمت کے اعتبار سے یہ نوٹ اپنی اس اصل کی طرح ہے جس کے یہ بدل ہیں یعنی سونا اور چاندی کیونکہ ان کا اصل چاندی یا سونا ان کی پشت پر ان کے زر ضمانت کے طور پر موجود ہے اور مقاصد شرعیہ کا تعلق تو اصل اور حقائق سے ہے نہ کہ الفاظ اور ان کی بناوٹ سے۔‘‘[1]
اس نقطہ نظر کے مطابق نوٹوں کے باہمی لین دین میں سود کے احکام بھی جاری ہونگے اور جب یہ دو سودرہم چاندی یا بیس دینارسونے کی قیمت کے مساوی ہوں تو سال کے بعد ان پر زکوۃ بھی واجب ہو گی۔اسی طرح ان کے ذریعے مضاربہ بھی درست ہوگا۔
لیکن یہ رائے بھی کمزور ہے کیونکہ اس کی بنیاد اس نظریہ پر ہے کہ نوٹ کی پشت پر سونا یا چاندی ہے حالانکہ امر واقع میں ایسا نہیں۔چنانچہ جسٹس علامہ عبداللہ بن سلیمان منیع اس کی تردید کرتے ہوئے رقمطراز ہیں۔
’’یہ نظریہ بھی حقیقت واقعہ کے مطابق نہ ہونے کی بنا پر قابل التفات نہیں کیونکہ اس کا دارومدار کرنسی نوٹوں کی اصل پر ہے اور اصل جیسا کہ ہم پہلے ہی واضح کر چکے ہیں کہ وہ تو کرنسی نوٹوں کی پشت پر ہے نہیں۔بلکہ اکثر ممالک کے نوٹ محض ساکھ کی بنا پر، زبانی ضمانتوں اور حکومتوں کے جاری کردہ ہونے کی بنا پر رائج اور قابل قبول ہیں ورنہ ان کے پیچھے نہ تو سونا ہے نہ چاندی۔بلکہ کچھ ایسے ہیں جنھیں پراپرٹی کی ضمانت حاصل ہے اور کچھ کو محض اقتدار کی ضمانت۔لہٰذا یہ نظریہ خلاف واقعہ ہونے کی بناء پر
[1] ۔كاغذی کرنسی کی تاریخ ۔ارتقاء ۔شرعی حيثيت ص:60۔