کتاب: معیشت وتجارت کے اسلامی احکام - صفحہ 19
تجارتی سرگرمیوں کو مناسب اصول وضوابط کے دائرہ میں رکھنا انتہائی ضروری ہے۔اس وقت دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا ملک ہو جس نے اپنی معیشت کو صحیح خطوط پر چلانے کے لیے تھوڑی بہت پابندیاں نہ لگا رکھی ہوں لیکن چونکہ ایک تو ان پابندیوں کی بنیاد وحی کی بجائے عقل انسانی پر ہے اور دوسرا سرمایہ داری نظام کا بنیادی اصول کہ ہرانسان حصول مال اور افزئش دولت کے جس جس انداز کو بہتر سمجھتا ہے آزادانہ اس کو استعمال میں لاسکتا ہے اپنی جگہ پر قائم ہے اس لیے غیر معمولی بحران میں یہ پابندیاں کارگر ثابت نہیں ہوتیں۔حقیقت پسند معاشی تجزیہ کاروں کے مطابق حالیہ عالمی مالیاتی بحران کا بنیادی محرک ہماری معیشت کا اخلاقی قیود اور پابندیوں سے مستثنیٰ ہوتا ہے، لہذا اس بحران سے نمٹنے کا بہترین طریقہ کاروباری اور تجارتی سرگرمیوں کو قواعد وضوابط کا پابند بنانا ہے۔
اوراگر یہ ناقدین اسلام کے معاشی وتجارتی احکام کا حقیقت پسندی سے جائزہ لیں تو خود گواہی دیں گے کہ اسلامی طریقہ تجارت نہایت اعلیٰ وارفع ہے جس میں شتر بے مہار آزادی،ہوس وحرص، مفاد پرستی اور خود غرضی کو کنٹرول کرنے کا شاندار میکانزم موجود ہے اور حقیقت میں یہی وہ خرابیاں ہیں جو معاشرے کے اجتماعی مفادات پر اثر انداز ہوتی اور معاشی بے اعتدالیوں اور ناہمواریوں کا باعث بنتی ہیں۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگیاں ہمارے لیے مشعل راہ ہیں جو اکثر وبیشتر تجارت پیشہ تھے اور ان کی تمام تر کاروباری سرگرمیاں شریعت کے تابع ہی ہوتی تھیں مگر اس کے باوجود انہوں نے معاشی میدان میں بے مثال ترقی کی،ہرطرف مال ودولت کی فراوانی،آسودگی اور خوشحالی عام تھی۔
وسیع تر اسلامی مملکت میں کوئی زکوۃ قبول کرنے والا نہ ملتا تھا۔معاشی اعتبار سے کمزور ترین افراد بھی زکوۃ ادا کرنے کے قابل ہوگئے تھے جو اس بات کا بین ثبوت ہے کہ معاشی ترقی کے لیے بے قید آزادی ناگزیر نہیں بلکہ یہ مقصد حدود وقیود کے اندر رہ کر بھی بخوبی حاصل کیا جاسکتا ہے۔