کتاب: معیشت وتجارت کے اسلامی احکام - صفحہ 186
حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس روایت میں بھی فلوس کا تذکرہ موجود ہے۔ "فَأَمَرَهَا أَنْ تَشْتَرِيَ بِهِ فُلُوسًا" ’’انہوں نے اپنی لونڈی سے کہاکہ اس کے بدلے’’فلوس‘‘ خریدلو۔‘‘[1] سونے چاندی کے سکے وجود میں آنے کے بعد بھی بعض علاقوں میں مخصوص اشیاء زر کی حیثیت سے استعمال میں رہیں۔مشہور سیاح ابن بطوطہ جب سوڈان گیا تو اس وقت وہاں نمک کے ساتھ ہی لین دین ہوتا تھا۔چنانچہ وہ لکھتا ہے۔ ’’سوڈان میں نمک بطور روپیہ کے چلتاہے اور سونے چاندی کا کام دیتا ہے اس کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرلیتے ہیں اور ان کے ذریعے خریدوفروخت ہوتی۔‘‘[2] پھر مختلف اسباب کی بنا پر آہستہ آہستہ درہم دینار کارواج ختم ہوتا چلا گیا اور ان کی جگہ کرنسی نوٹوں نے لے لی۔اب صورت حال یہ ہے کہ پوری دنیا میں کرنسی نوٹوں کا ہی دوردورہ ہے کیونکہ یہ آسان ترین ذریعہ مبادلہ ہے۔ نوٹ کب ایجاد ہوئے کہاجاتاہے اہل چین نے 650ء سے 800 ء کے درمیان کاغذ کے ڈرافٹ بنانے شروع کئے تھے انہی ڈرافٹ نے آگے چل کر کرنسی نوٹوں کی اشاعت کاتصور دیا۔اسی لیے کاغذ کی طرح کرنسی نوٹ بھی اہل چین کی ایجاد شمار ہوتے ہیں۔ کہتے ہیں سب سے پہلے کرنسی نوٹ 910ء میں چین میں ایجاد ہوئے۔[3] ا بن بطوطہ جو 1324ء سے 1355 ء کے درمیان چین کی سیاحت پر گیا تھا چین کے نوٹوں کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے۔
[1] ۔مسند احمد بن حنبل 5/156۔ [2] ۔سفرنامہ ابن بطوطہ حصہ دوم ص 270۔ [3] ۔الاوراق التقدية في الاقتصاد الاسلامي قيمتها واحكامها:ص 115۔