کتاب: معیشت وتجارت کے اسلامی احکام - صفحہ 185
میں بنایا گیا۔لیکن فقہاء اور مؤرخین نے ثابت کیا ہے کہ یہ درہم اپنی اصلی حالت پر نہیں رہا تھا مختلف شہروں میں اس کے وزن اور معیار میں کافی تبدیلی آتی رہی ہے۔جدید تحقیق کی روشنی میں اس درہم کا وزن 2.975 گرام چاندی ہے۔[1] اسی طرح دینار رومیوں کی کرنسی تھی جو براستہ شام یہاں آتی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو باقی رکھاحتی کہ خلفاء راشدین رضوان اللہ عنہم اجمعین اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں بھی رومی دینار کو ہی کرنسی کی حیثیت حاصل رہی۔جب مسند خلافت عبدالملک بن مروان کے پاس آئی تو انہوں نے زمانہ جاہلیت کے دینار کے مطابق ایک دینار جاری کیا جس کو شرعی دینار کہا جاتا ہے کیونکہ اس کا وزن اس دینار کے برابر تھا جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے برقرار رکھاتھا۔[2] معمولی اشیاء کے لین دین میں سونے چاندی کے علاوہ دوسری دھاتوں یعنی تانبے وغیرہ سے بنے سکے جنہیں فُلُوس کہا جاتا ہے،بھی استعمال ہوتے۔ حدیث میں دیوالیہ شخص کے متعلق اَلمُفلِس کا لفظ آتا ہے۔شارح بخاری علامہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اپنی مایہ ناز تالیف فتح الباری میں فرماتے ہیں۔ ’’شرعی معنوں میں مفلس وہ شخص ہے جس کے قرضے اس کے پاس موجود مال سے زیادہ ہوجائیں اسے مفلس اس لیے کہا جاتا ہے کہ پہلے درہم ودینار کا مالک تھا لیکن اب فلوس پر آگیا ہے۔یہ اس بات کی طرف اشارہ ہوتا ہے کہ یہ شخص صرف معمولی مال (فلوس) کا مالک رہ گیا ہے۔ یا ایسے شخص کو مفلس اس بناء پر کہا جاتا ہے کہ اس کوفلوس جیسی معمولی چیز میں ہی تصرف کا حق ہوتا ہے کیونکہ وہ فلوس کے ذریعے معمولی اشیاء کا لین دین ہی کرتے تھے۔‘‘[3]
[1] ۔الموسوعة الفقهية 20/249۔ [2] ۔ایضاً :مادہ دنانییر۔ [3] ۔فتح الباری 5/79۔