کتاب: معیشت وتجارت کے اسلامی احکام - صفحہ 18
معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں اس لیے اسلامی ریاست میں ان لوگوں کو کاروبار کی قطعاً اجازت نہیں جو خریدوفروخت اور تجارت کے متعلق اسلامی احکام سےواقف نہ ہوں۔چنانچہ خلیفہ ثانی حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے۔
" لاَ يَبِعْ فِي سُوقِنَا إِلاَّ مَنْ قَدْ تَفَقَّهَ فِي الدِّينِ ."
’’ہمارے بازاروں میں وہی خریدوفروخت کرے جسے دین (کے تجارتی احکام) کی سمجھ ہو۔‘‘[1]
تیرھویں صدی ہجری کے مالکی فقیہ محمد بن احم الرھونی رحمہ اللہ (متوفی 1230ھ) نے اپنے شیخ ابومحمد رحمہ اللہ کے حوالہ سے نقل کیا ہے
’’ کہ انہوں نے مراکش میں محتسب کو بازاروں میں گشت کرتے دیکھا جو ہر دکان کے پاس ٹھہرتا اور دکان دار سے اس کے سامان سے متعلق لازمی احکام کے بارہ میں پوچھتا اور یہ دریافت کرتا کہ ان میں سود کب شامل ہوتا ہے اور وہ اس سے کیسے محفوظ رہتا ہے۔اگر وہ صحیح جواب دیتا تو اس کو دکان میں رہنے دیتا اور اگر اسے علم نہ ہوتا تو اسے دکان سے نکال دیتا اور کہتا تیرے لیے مسلمانوں کے بازار میں بیٹھنا ممکن نہیں تو لوگوں کو سود اور ناجائز کھلائے گا۔‘‘[2]
بے دين حلقوں کا پراپیگنڈہ
اسلامی تعلیمات سے نا آشنا بعض حلقے یہ پراپیگنڈہ کرتے ہیں کہ اسلام کے معاشی اور تجارتی احکام پر عمل کرنے سے ہماری کاروباری سرگرمیوں پر جمود طاری ہوجائے گا اور ہم معاشی اعتبار سے بہت پیچھے چلے جائیں گے، مگر وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ حقیقی اور دیر پا ترقی کے لیے
[1] ۔جامع ترمذی :ابواب الوتر،باب ماجاء فی فضل الصلاۃ علی النبی۔
[2] ۔وضع المسالك بحوالہ بحوث فقھیۃ فی قضایا اقتصادية معاصرة ج 1:ص 145۔