کتاب: معیشت وتجارت کے اسلامی احکام - صفحہ 172
بِالدِّينَارَيْنِ، وَلَا الدِّرْهَمَ بِالدِّرْهَمَيْنِ»" ’’حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا:کہ تم ایک دینار ودینار اور ایک درہم ودودرہم کے عوض فروخت نہ کرو۔‘‘[1] ظاہر ہے جب کمی بیشی ممنوع ہوگی تو پھر سمجھ بوجھ رکھنے والاکوئی شخص بھی خریدوفروخت کے تکلف میں نہیں پڑے کرے گا کیونکہ تجارت تفریح کی چیز نہیں ہے۔اس سے یہ حقیقت نصف النہار کی طرح روشن ہے کہ شریعت اسلامیہ میں زر کی تجارت کی قطعاً گنجائش نہیں ہے۔ امام غزالی رحمہ اللہ زر کو آلہ تبادلہ کے علاوہ کسی اور مقصد کے لیے استعمال کرنے کو کفران نعمت اور ظلم سے تعبیر کرتے ہیں۔چنانچہ وہ احیاء العلوم میں فرماتے ہیں: ’’اور جو شخص درہم ودینار پر سود لیتا ہے وہ نعمت کی ناقدری اور ظلم کرتا ہے کیونکہ ان دونوں کو دوسری اشیاء کے حصول کی غرض سے پیدا کیا گیا ہے نہ کہ خود اپنے لیے۔چنانچہ جو شخص ان میں تجارت کرتا ہے تو اس نے ان کو تخلیق کی حکمت کے خلاف مقصود بنا لیا کیونکہ زر کو اس مقصد کے علاوہ کسی دوسرے کام کے لیے استعمال کرنا ظلم ہے۔‘‘[2] اس بات پر سب معيشت دان متفق ہیں کہ معیشت کی بہتری کے لیے یہ ضروری ہے کہ غیر فعال سرمایہ (Dead Money) کم سے کم اور فعال سرمایہ(Actide Money) زیادہ سے زیادہ ہو، جبکہ زر کی تجارت کی وجہ سے سرمائے کی گردش کا عمل بُری طرح متأثر ہوتا اور دولت چندہاتھوں میں مقید ہوجاتی ہے جس کے معاشی شرح نمو(Economic Growth Rate) پر منفی اثرات پڑتے ہیں۔چنانچہ امام غزالی رحمہ اللہ زر کی خریدو فروخت کے مضمرات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’تو جس کے پاس زر ہے اگر اس کے لیے یہ جائز ہو کہ وہ اسے زر کے عوض بیچ دے
[1] ۔مؤطا امام مالك باب بيع الذهب الفضة تبراً ،صحيح مسلم باب الربا۔ [2] ۔احياء العلوم:فصل في الشكر ،بيان تمييز ما يحبه اللّٰه تعاليٰ۔