کتاب: معیشت وتجارت کے اسلامی احکام - صفحہ 17
معیشت وتجارت کا اسلامی تصور
اسلام اور دیگر نظام ہائے معیشت میں فرق
معیشت وتجارت کے حوالہ سےدین اسلام کا طُرہ امتیاز یہ ہے کہ یہ نہ تو سرمایہ دارانہ نظام کی طرح لوگوں کو کھلی چھٹی دیتا ہے کہ ہر شخص اپنے کاروبار کو ترقی دینے اور نفع آفرینی کیلئے جو طریقہ مناسب سمجھے اختیار کرے۔چاہے سودی کاروبارکرے، شراب بیچے، جواکھیلے، عصمت فروشی کرے یاذخیرہ اندوزی اس پر کوئی قدغن نہیں ہے۔اور نہ ہی کمیونزم اورسوشلزم کی طرح آہنی زنجیروں میں جکڑتاہے کہ تمام وسائل پیداوارحکومت کےقبضہ میں ہوں اور وہ افراد کو نظر انداز کر کے ساری منصوبہ بندی خود ہی کرے۔افراد کو نہ انفرادی طور پر ان پر مالکانہ حقوق حاصل ہوتے ہیں اور نہ ہی وہ حسب منشاء ان سے تنہا فائدہ اٹھا سکتے ہیں بلکہ اسلام کا رویہ اعتدل پر مبنی ہے کہ جہاں شخصی ملکیت کو عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھتا نفع اندوزی کے جذبہ کو تسلیم کرتا اور اپنے ماننے والوں کو تجارت کے ذریعےکسب مال کی ترغیب دیتا ہے۔وہاں دولت کمانے کا عام لائسنس نہیں دیتا بلکہ حلال وحرام کا امتیازقائم کرتا اور کاروبار کے لیے رہنمااصول پیش کرتا ہے جن کو ملحوظ رکھنا اشد ضروری ہے۔ان اصولوں کی پابندی کرلے جو بھی کاروباریا لین دین کیا جائے وہ شریعت کی نگاہ میں جائز تصور ہوتا ہے خواہ وہ دور جدید کی ہی پیدا وار ہو، یعنی اسلام کا رویہ معتدل ہونے کے ساتھ ساتھ جامع اور لچکدار بھی ہے جو ہر دور کےتقاضے پورےکر سکتا ہے۔اپنی اسی خوبی کی بناپردین اسلام دیگر نظام ہائے معیشت پر فوقیت رکھتا ہے۔
اسلام کے وضع کردہ اصول چونکہ انتہائی حکیمانہ، متوازن، معاشی خوشحالی اور حقیقی ترقی کےضامن ہیں اور ان کی خلاف ورزی ایسی معاشی برائیوں کو جنم دیتی ہیں جو آہستہ آہستہ پورے