کتاب: معیشت وتجارت کے اسلامی احکام - صفحہ 164
تصفیہ کے اخراجات اور واجب الاداقرض منہا کرکے باقی رقم تمام حصہ داروں میں ان کے حصص کے تناسب سے تقسیم کردی جائے۔اس کی دلیل یہ ہے کہ شراکت سے متعلق اثاثہ جات سب حصہ داروں کی مشترکہ ملکیت ہوتے ہیں لہذا شراکت کی مدت ختم ہونے پر تمام شرکاء میں ان کے حصص کے بقدر تقسیم ضروری ہے۔چنانچہ دنیا بھر کے اسلامی بینکوں اور مالیاتی اداروں کی شرعی رہنمائی کے لیے ترتیب دی گئی دستاویز’’ المعايير الشرعية‘‘میں بڑے واضح الفاظ میں لکھا ہے: ’’ جب شراکت کی مدت ختم ہونے پر تصفیہ ہوتو وہ اس طرح مکمل ہوگا کہ تمام اثاثہ جات کو بازار میں بیچا جائے اور اس سے جو کچھ حاصل ہو وہ اس طرح استعمال میں لایا جائے کہ پہلے تصفیہ کے اخراجات نکالے جائیں، پھر شرکت کے ٹوٹل اثاثوں میں سے مالی ادائیگیاں کی جائیں اور پھر بقیہ اثاثوں میں سےہر شریک کو اس کے اصل سرمایہ کی مناسبت سے دیا جائے اوراگر اثاثے اصل سرمائے کی واپسی کے لیے ناکافی ہوں تو ہر ایک کو اس کے سرمائے کی نسبت سے حصہ رسدی دے دیاجائے۔‘‘[1] اس سے پہلے یہ وضاحت بھی کی گئی ہے کہ شراکت کا کوئی فریق یہ وعدہ نہیں کرسکتا کہ وہ شراکت کے اثاثہ جات قیمت اسمیہ(Face Value) پر خرید لے گا۔[2] کیونکہ اس کا مطلب ہوگا کہ ایک شریک کو یہ ضمانت فراہم کردی گئی ہے کہ اس کا راس المال لازمی واپس کیاجائے گا اوریہ شراکت کے اصولوں کے خلاف ہے۔ اجارہ صکوک بھی چونکہ محدود مدت کی شراکت داری کے تصور پر جاری کیے جاتے ہیں اس لیے یہ ضروری ہے کہ جب صکوک کی مدت پوری ہوتو وہ اثاثہ فروخت کیاجائے اور اس سے وصول ہونے والی رقم حاملین صکوک میں ان کے حصص کے تناسب سے تقسیم کی جائے۔
[1] ۔المعايير الشرعية ص 199،200۔ [2] ۔المعايير الشرعية ص 199،