کتاب: معیشت وتجارت کے اسلامی احکام - صفحہ 163
لیے کہ جب تک شراکت داری کا تعلق قائم نہیں ہوگا نہ تو ان صکوک پر منافع لینا جائز ہوگا اور نہ ہی ان کے اوپر لکھی ہوئی قیمت(Face Value) سے کم یا زائد پر ان کی خریدوفروخت صحیح ہوگی کیونکہ اس صورت میں یہ قرض کی دستاویز ہوں گے جن پر کسی قسم کامنافع یا ان کا کمی بیشی کے ساتھ تبادلہ سود ہے جس سے ان کے اجراء کامقصد فوت ہوجائے گا۔ جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ صکوک کے جاری کنندہ اور حاملین کاباہمی تعلق محدود مدت کی شراکت داری کے تصور پر استوار ہوتا ہے تو پھر ان کو شراکت داری احکام کے تناظر میں ہی دیکھنا چاہیے۔اسلامی فقہ میں شراکت کے احکام بڑی وضاحت سے بیان ہوئے ہیں یہاں ان کی تفصیل بے محل ہوگی تاہم درج ذیل امور ضرور نگاہ میں رہنے چاہئیں۔ ٭ شراکت کا بنیادی اصول یہ ہے کہ نفع ونقصان میں تمام فریق شریک ہوں گے، چنانچہ ایسی شراکت جائز نہیں جس میں کوئی فریق منافع میں تو حصہ دار ہومگر اپنے حصے کے نقصان کی ذمہ داری قبول نہ کرے۔چونکہ صکوک ہولڈرز ان اثاثوں میں حصہ دار ہوتے ہیں اس لیے انہیں اپنے حصص کے تناسب سے نقصان بھی برداشت کرنا چاہیے۔ ٭ ایسی شراکت جائز نہیں جس میں کسی فریق پر یہ لازم ہو کہ وہ دوسرے فریق کو اصل زر کی نسبت سے طے شدہ منافع ادا کرے گا۔مثلاً یہ کہا گیا ہو کہ ان صکوک پر بہر صورت بارہ فیصد منافع دیاجائےگا،یہ سود کی تعریف میں داخل ہونے کی وجہ سے ناجائز ہوگا۔البتہ شراکت کے آغاز میں یہ طے کیاجانا ضروری ہے کہ حاصل منافع شرکاء کے مابین کس نسبت سے تقسیم ہوگا۔لہذا ایسے صکوک جائز نہیں جن میں حاملین صکوک کی طرف سے لگائے گئے سرمائے(Invested Money) کی فیصد نسبت کے حساب سے منافع طے کیا یا اس کا تاثر دیا گیا ہو۔ ٭ شراکت کے اختتام پر تصفیہ ضروری ہوتا ہے جس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ شراکت سے متعلق تمام اثاثہ جات کو بیچ کر نقد میں تبدیل کر لیا جائے اور ان سے حاصل ہونے والی رقم سے