کتاب: معیشت وتجارت کے اسلامی احکام - صفحہ 149
وعدہ،سیکورٹی ڈپازٹ اور مطلوبہ چیز کی کلائنٹ کے ذریعے خریداری کاتحقیقی جائزہ لینا بہت ضروری ہے۔ قانونی اعتبار سے لازم وعدہ کی شرعی حیثیت مروجہ اسلامی بینکاری کے حامیوں کے نزدیک کلائنٹ سے وعدہ لینے کا مقصد صرف بینک کو یہ یقین دلانا ہے کہ وہ اس کے ساتھ ضرور اجارہ کا معاملہ کرے گا تاکہ بینک پورے اطمینان کے ساتھ مطلوبہ چیز کی خریداری کرسکے۔اس سے اجارہ منعقد نہیں ہوتا بلکہ اجارہ کا باضابطہ معاہدہ مطلوبہ چیز حاصل کرنے کے بعد طے پاتا ہے۔ لیکن اگر معمولی غور وفکر کیاجائے تو یہ موقف خاصا کمزور نظرآتاہے۔اس لیے کہ باضابطہ معاہدے کی حیثیت علامتی کاروائی کے سوا کچھ نہیں، کیونکہ قانونی لحاظ سے کلائنٹ اس بات کاپابند ہوتاہے کہ وہ بینک کی خریدی ہوئی چیز بہرحال ماسٹر فائنانسنگ ایگریمنٹ میں طے شدہ شرائط کے مطابق اجارہ پر لے۔اور اگر پس وپیش کرے تو بینک قانونی چارہ جوئی کے لیے عدالت سے بھی رجوع کرسکتاہے اور عدالت اسے مجبور کرسکتی ہے کہ وہ بینک کے ساتھ اجارہ کا معاملہ کرے۔علاوہ ازیں وعدہ اجارہ کے موقع پر بینک سیکورٹی ڈپازٹ کے نام پر ایک معقول رقم بھی وصول پاچکا ہوتا ہے تاکہ اگربینک کی خریداری کے بعد کلائنٹ چیز لینے سے گریزاں ہو،یا اقساط کی ادائیگی نہ کرے، یا دیوالیہ جائے تو بینک کو پہنچنے والے نقصان کی تلافی اس رقم سے کی جاسکے جس سے یہ معاملہ سادہ وعدے کی حد تک نہیں رہتا بلکہ معاہدے کے دائرہ میں داخل ہوجاتا ہے، البتہ اس نے نافذ العمل مستقبل کی تاریخ پر ہوناہے اور جب یہ معاہدہ ہے تو گویا بینک نے ملکیت میں لانے سے قبل ہی اجارہ پر دینے کا معاہدہ کرلیا، جو اجارہ قوانین کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ چنانچہ مصر کے ممتاز دینی اسکالر وماہر اسلامی معاشیات ڈاکٹر رفیق یونس مصری لکھتے ہیں: "فاذا لم يكن الوعد ملزما فهذا لا بأس فيه أما اذا كان ملزما فان