کتاب: معیشت وتجارت کے اسلامی احکام - صفحہ 147
دوران اجارہ فلاں فلاں شق کی خلاف ورزی کی وجہ سےبینک نے اجارہ ختم کردیا تو وہ اجارہ شدہ اثاثہ خریدنے کاپابند ہوگا اور مختلف مہینوں کے حساب سے قیمت بھی متعین کردی جاتی ہے کہ پہلے مہینے یہ،دوسرے اورتیسرے مہینے یہ قیمت ہوگی۔نیز اس موقع پر بینک بھی یہ وعدہ کرتا ہے کہ اگر کلائنٹ تمام اقساط باقاعدگی سے ادا کرتا رہا تو وہ اختتام اجارہ پر گاڑی اس کو فروخت کرنے کے بارے میں سوچے گا۔بینک کی طرف سے کئے گئے وعدہ پر قبول کنندہ کی حیثیت سے کلائنٹ کے بھی دستخط ہوتے ہیں۔ ٭ بعض اوقات بینک بالخصوص جب اجارہ شدہ ا ثاثہ پہلے سے استعمال شدہ یا درآمدی مشینری ہوکلائنٹ سے ہی کہہ دیتاہے کہ وہ اس کے ایجنٹ کی حیثیت سے اپنی مطلوبہ چیز خود ہی خرید لے۔اور اگر مطلوبہ چیز دوسرے ملک سے درآمد کی جا رہی ہوتو کلائنٹ کو اس پر قبضے کا وکیل بھی بنادیتاہے۔ ٭ کرایہ کی اقساط اس تناسب سے مقرر کی جاتی ہیں کہ اختتام اجارہ تک بینک کو گاڑی کی قیمت بھی وصول ہوجائے اوراتنی مدت کے لیے اگر یہ رقم قرض پر دی جاتی تو جتنا سود ملنا تھا وہ بھی وصول ہوجائے، یعنی روائتی بینکوں کی شرح سود ہی اسلامی بینکوں کے نفع کی شرح کا معیار ہوتی ہے۔مروجہ اسلامی بینکوں میں منافع اور کرائے کے تعین کے لیے کائبور یعنی کراچی انٹر بینک آفر ڈریٹ کو معیاربناناہر کس وناکس کے علم میں ہے۔ ٭ بینک جو رقم سیکورٹی ڈپازٹ کی مد میں لیتا ہے وہ منہا کرکے بقیہ رقم کے حساب سے قسطیں مقرر کرتا ہے کیونکہ بینک نے اپنے سرمائے پر ہی منافع لیناہے۔یہی وجہ ہے اگر کوئی کلائنٹ بینک کی فرمائش سے زائد رقم سیکورٹی ڈپازٹ کے طور پر جمع کرادے تو اس کے کرائے کی قسط کم رکھی جاتی ہے۔مثلاً ایک شخص اسلامی بینک سے دس لاکھ مالیت کی گاڑی تین سال کے لیے اجارہ پر لیتا ہے اور سیکیورٹی ڈپازٹ میں دولاکھ جمع کراتا ہے تو بینک قسطیں اس تناسب سے مقرر کرے گا کہ ان تین سالوں میں آٹھ لاکھ بھی واپس مل جائے اور