کتاب: معیشت وتجارت کے اسلامی احکام - صفحہ 145
بینک کا فائدہ یہ ہے کہ رقم کی وصولیابی کے لیے قرض کی نسبت یہ طریقہ زیادہ باعث اعتماد ہے،کیونکہ اس میں گاڑی اور مشینری بینک کی ملکیت ہی رہتی ہے،رقم واپس نہ ملنے کی صورت میں بینک اسے فروخت کرسکتا ہے۔ کلائنٹ کا فائدہ یہ ہے کہ وہ ٹیکس سے مستثنیٰ ہوجاتا ہے کیونکہ جب تک لیز کی تمام اقساط ادا نہیں کردی جاتیں لیز شدہ اثاثہ اس کی ملکیت میں نہیں آتا جس کے نتیجے میں اسے اتنا عرصہ ٹیکس سے چھوٹ مل جاتی ہے۔یہاں یہ مسئلہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ کسی شئی کے مفید ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ شرعاً بھی جائز ہو۔ روائتی بینکوں میں لیزنگ کی جو عملی صورت رائج ہے وہ متعدد ایسی خرابیوں پر مشتمل ہے جن کی شریعت میں قطعاً گنجائش نہیں۔وہ خرابیاں درج ذیل ہیں۔ 1۔ یہ حقیقت میں سودی معاملہ ہے جسے فریقین نے مذکورہ بالا فوائد کے پیش نظر لیز کا نام دے دیا ہے۔اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ بینک کلائنٹ کو گاڑی یا مشینری خرید کر نہیں دیتا بلکہ رقم دیتا ہے اور اس پر طے شدہ نفع لیتا ہے جو سود کے زمرہ میں آتا ہے۔ اس کا دوسرا ثبوت یہ ہے کہ بینک رقم مہیا کرنے کے دن سے ہی کرایہ لینا شروع کردیتا ہے، خواہ کلائنٹ کو گاڑی یا مشینری چند ماہ بعد ملے۔اگر یہ لیزنگ کا معاملہ ہوتا تو کرایہ حوالگی کے دن سے شروع ہوتا نہ کہ رقم کی فراہمی کی تاریخ سے۔نیز اس میں قسط کی ادائیگی میں تاخیر پر جرمانہ لیا جاتا ہے، یہ بھی سود میں داخل ہے۔ 2۔ ایک ہی عقد میں لیز اور بیع کے دو معاملے جمع ہوجاتے ہیں شرعاً ایساکرنا ممنوع ہے۔ 3۔ لیز شدہ اثاثے کا نقصان کلائنٹ خود برداشت کرتا ہے،حالانکہ اس کا ازالہ بینک کی ذمہ داری ہے کیونکہ مالک وہ ہے۔ اسلامی بینکوں کا طریق کار جبکہ اسلامی بینکوں کی اجارہ مصنوعات کے نمایاں خدوخال یہ ہیں۔