کتاب: معیشت وتجارت کے اسلامی احکام - صفحہ 142
اس کی دلیل یہ ہے کہ انعقاد اجارہ کے بعد اس چیز کی منفعت مکمل طور پر پٹہ دار کی ملکیت بن جاتی ہے، لہذا وہ یہ منفعت جسے چاہے فروخت کرے، شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں بشرطیکہ دوسرا کرایہ دار اس سے اتنا ہی فائدہ حاصل کرے جتنا پہلے کرایہ دارنے طے کیا تھا یا اس سے کم،مثلاً ایک شخص نے رہائش کے لیے کسی سے مکان کرایہ پر لیا تو وہ کسی دوسرے کو رہائش کے لیے دےسکتا ہے، مگر فیکٹری لگانے کے لیے دینا جائز نہیں کیونکہ اس سے مکان کو زیادہ نقصان پہنچ سکتا ہے۔کویت کے فقہی انسائیکلو پیڈیا میں ہے۔ "جمهور الفقهاء (الحنفيّة والمالكيّة والشّافعيّة والأصحَ ء الحنابلة) على جواز إيجار المستأجر إلى غير المؤجر الشىء الذى استأجره وقبضه فى مدّتة العقد، ما دامت العين لا تتأثّر باختلاف المستعمل، وقد أجازه كثير من فقهاء السّلف، سواء أكان بمثل الأجرة أم بزيادة" ’’جمہور فقہاء یعنی حنفی،مالکی، شافعی، اور حنبلی مسلک کے صحیح قول کے مطابق پٹہ دار مدت اجارہ کے دوران پٹہ پر لی گئی چیز پٹہ دہندہ کے علاوہ کسی دوسرے شخص کو کرایہ پر دے سکتا ہے بشرطیکہ استعمال کنندہ کے بدلنے سے اجارہ شدہ چیز متأثر نہ ہو۔سلف میں سے اکثر فقہاء نے اسے جائز قرار دیا ہے خواہ پہلے کرائے پر ہی دی جائے یا زائد پر۔‘‘[1] لیکن اگر عرف عام میں مالک کی اجازت کے بغیر دوسرے کو کرایہ پر دینا جائز نہ سمجھا جاتا ہو یا مالک نے اس سے منع کردیا ہو تو پھر اس کی واضح اجازت کے بغیر کسی اور کو کرایہ پر دیناجائزنہیں،کیونکہ اس صورت میں منفعت کی ملکیت پٹہ دار کی طرف اس قید کے ساتھ منتقل ہوئی ہے کہ وہ آگے کسی دوسرے شخص کو کرایہ پر نہیں دے گا، لہذا اس کی خلاف ورزی جائز نہیں۔ ٭ فریقین کی باہمی رضا مندی کے بغیر طے شدہ مدت سے قبل اجارہ ختم نہیں کیا جا سکتا۔اس کی
[1] ۔الموسوعة الفقهية:ج1 ص 267۔