کتاب: معیشت وتجارت کے اسلامی احکام - صفحہ 139
چکا ہوتو وہ اس کی خریداری کے لیے اس شخص کو اپنا ایجنٹ (وکیل) مقرر نہ کرے جو اثاثہ خود کرایہ پر لینا چاہتا ہو کیونکہ اس صورت میں پٹہ دہندہ بینک یا مالیاتی ادارے کاکردارمالی وسائل فراہم کرکے فائدہ حاصل کرنے تک رہ جاتا ہے، جس سے معاملہ سودی قرض کے مشابہ بن جاتا ہے،اس لیے کہ دونوں صورتوں عملاً میں کوئی فرق نہیں ہے۔سود کی شدید حرمت کے پیش نظر اس تکنیک سے پرہیز اور احتراز واجب ہے۔ ٭ اجارہ کے معاملہ میں ’’معقود علیہ‘‘(Subject Matter) اجارہ شدہ اثاثے اور جائیداد کا فائدہ یا حق استعمال ہوتاہے، اس لیے عقدِ اجارہ صحیح ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ جس فائدے یا حق استعمال کو اجارہ پر دینا مقصود ہو وہ غیر مبہم، متعین اور معلوم ہو، تاکہ بعد میں فریقین کے درمیان کسی قسم کا نزاع پیدا نہ ہو۔مجہول منفعت کا اجارہ قطعی ناجائز ہے کیونکہ یہ غرر(Uncertainty) میں د اخل ہے جس سے شریعت نے منع کیاہے۔ ٭ قرض دینے کی شرط پر اجارہ کا معاملہ کرنایا اجارہ کی شرط پر قرض دینا جائز نہیں یعنی یہ کہنا کہ میں آپ کو قرض دوں گا بشرط یہ کہ آپ میرے ساتھ اجارہ کا معاملہ کریں یا میں آپ کے ساتھ اس شرط پر اجارہ کا معاملہ کرں گا کہ آپ اس کے بدلے مجھے اتنا قرض دیں ناجائز ہے، جیسا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک ہے: "لاَ يَحِلُّ سَلَفٌ وَبَيْعٌ" ’’بیع اور قرض جمع نہیں ہوسکتے۔‘‘[1] بیع میں اجارہ بھی شامل ہے لہذا قرض اور اجارہ کا معاملہ بھی جمع نہیں ہوسکتا۔علامہ ابن قدامہ حنبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "وإن شرط في القرض أن يؤجره داره أو يبيعه شيئا أو أن يقرضه المقترض مرة أخرى , لم يجزلأن النبي صلى اللّٰه عليه وسلم نهى عن بيع وسلف
[1] ۔سنن الترمذی باب ما جاء فی کراھیة بيع ما ليس عنده۔