کتاب: معیشت وتجارت کے اسلامی احکام - صفحہ 112
صورت میں صفوان بن امیہ کو جو چار سودرہم دینے کا وعدہ کیا تھا وہ بیعانہ نہیں بلکہ اس عرصہ میں مکان کے استعمال کا کرایہ تھے۔چنانچہ شارح بخاری علامہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’نافع کا یہ شرط لگانا کہ اگر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راضی نہ ہوئے تو صفوان کو چار سو درہم دئیے جائیں گے، ہو سکتا ہے انھوں نے ان دراہم کو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جواب آنے تک گھر سے فائدہ حاصل کرنے کا کرایہ قرار دیا ہو۔‘‘[1] علامہ بدر الدین عینی حنفی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’اس کا مطلب ہے کہ اگر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس سودے پر راضی نہ ہوئے تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف سے جواب آنے تک اس گھر سے فائدہ اٹھانے کے عوض صفوان کو چار سو درہم دئیے جائیں گے۔‘‘[2] علامہ شہاب الدین قسطلانی رحمہ اللہ نے بھی اس کی یہی تشریح کی ہے۔[3] لیکن جس طرح کرایہ لینے کے باعث مالک پابند ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے مکان سے کوئی دوسرا فائدہ نہیں اٹھا سکتا اسی طرح بیعانہ میں بھی مالک اچھی قیمت کا موقع ملنے کے باوجود فائدہ اٹھانے سے محروم رہتا ہے کیونکہ وہ بیعانہ کی وجہ سے چیز کو روکنے کا پابند ہوتا ہے اس لحاظ سے یہ واقعہ بیعانہ سے ملتا جلتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ جب امام اثرم رحمہ اللہ نے حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے پوچھا کہ کیا آپ بھی اس کے قائل ہیں تو انھوں نے فرمایا: ’’میں کیا کہوں یہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں یعنی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اس کے قائل ہیں۔‘‘[4]
[1] ۔فتح الباري ج 5 ص 95۔ [2] ۔عمدة القاري ج 9 ص 151۔ [3] ۔ارشاد الساري ج 5 ص420۔ [4] ۔المغني ج 6 ص 331۔