کتاب: معیشت وتجارت کے اسلامی احکام - صفحہ 110
’’ کہ ایک آدمی نے کرایہ پر دینے والے سے کہا: اپنی سواری تیار رکھنا اگر میں نے فلاں فلاں دن تمھارے ساتھ سفر نہ کیا تو آپ کو سودرہم دوں گا پھر اس نے سفر نہ کیا تو (قاضی)شریح نے کہا جو خوشی سے بغیر کسی جبر کے اپنے اوپر کوئی غلط عائد کرے تو وہ اس کو پوری کرنا ہوگی۔‘‘[1] 4۔حضرت سعید بن مسیب اور امام ابن سیرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "لا بأس إذاكره السلعة أن يردها. ويرد معها شيئا وقال أحمد هذا في معناه" ’’اس میں کوئی حرج نہیں کہ جب چیز واپس کرے تو اس کے ساتھ کوئی شے واپس کرے امام احمد کہتے ہیں یہ صورت بیعانہ کے معنی میں ہی ہے۔‘‘[2] فریقین کے دلائل کا تجزیہ بیعانہ کی شرعی حیثیت کا جائزہ لینے کے لیے درج ذیل نکات کو نگاہ میں رکھنا نہایت ضروری ورنہ صحیح رائے قائم کرنے میں غلطی لگ سکتی ہے۔ ٭ بیعانہ لینے کے بعد مالک پابند ہو جاتا ہے کہ وہ کسی اور کے ساتھ بیع کی بات چیت نہ کرے۔ لہٰذا نہ تو وہ خود بیچنے کی کوشش کرتا ہے اور نہ ہی کوئی دوسرا خریدار دلچسپی لیتا ہے کیونکہ عموماً اکثر خریداروں کو یہ علم ہو جاتا ہے کہ فلاں جائیداد کا سودا ہو چکا ہے۔اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ فروخت کنندہ کو اپنا مال اچھی قیمت پر فروخت کرنے کا موقع مل رہا ہو لیکن وہ بیعانہ کی وجہ سے اس فائدہ سے محروم رہے یا بیعانہ کی مدت کے دوران تو کوئی خریدار موجود ہو مگر بعد میں جلد کوئی اور خریدار نہ مل سکے جس کے باعث اسے اپنی چیز کم قیمت پر فروخت کرنی پڑے۔
[1] ۔صحيح بخاري باب مايجوز من الاشطراط والثنيا في الاقرار۔ [2] ۔المغني فصل في بيع العربون۔