کتاب: معیشت وتجارت کے اسلامی احکام - صفحہ 108
بیان کرتے ہیں: " نَهَى رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعِ الْعُرْبَانِ " ’’رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے بیعانہ کی بیع سے منع فرمایا ہے۔‘‘[1] 3۔اس میں غرر یعنی بے یقینی کی کیفیت(uncertainty) پائی جاتی ہے کیونکہ یہ طے نہیں ہوتا کہ بیعانہ دینے والا ضرور خریدے گا بلکہ اس کو اختیار ہوتا ہے کہ چاہے تو ڈیل مکمل کرےاور چاہے تو رد کردے۔چنانچہ علامہ محمد بن اسماعیل الصنعانی رحمہ اللہ مذکورہ بالا حدیث کی شرح میں رقمطراز ہیں: "فأبطله مالك والشافعي لهذا النهي ولما فيه من الشرط الفاسد والغرر ودخوله في أكل المال بالباطل" ’’امام مالک اور شافعی رحمہ اللہ نے بیعانہ کی بیع کو اس نہی کی وجہ سے ناجائز کہا ہے اور یہ اس لیے بھی ناجائز ہے کہ اس میں شرط فاسد اور غرر پایا جاتا ہے اور یہ باطل طریقے سے مال کھانے کے زمرہ میں آتی ہے۔‘‘[2] 4۔یہ دوفاسد شرطوں پر مشتمل ہے۔چنانچہ امام شوکانی رحمہ اللہ اس کے عدم جواز کی وجوہ بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں: "والعلة في النهي عنه اشتماله على شرطين فاسدين. أحدهما: شرط كون ما دفعه إليه يكون مجاناً إن اختار ترك السلعة، والثاني:شرط الرد على البائع إذا لم يقع منه الرضا بالبيع" ’’ممانعت کی علت یہ ہے کہ یہ فاسد شرطوں پر مشتمل ہے۔ایک یہ کہ اگر چیز نہ لی تو بیعانہ کی رقم بغیر معاوضہ کے فروخت کنندہ کی ہوگی اور دوسری یہ کہ اگر خرید بیع پر راضی
[1] ۔سنن ابي داود باب في العربان۔ [2] ۔سبل السلام ج 4 ص 99۔