کتاب: معیشت وتجارت کے اسلامی احکام - صفحہ 106
’’جمہور حنفی، شافعی، مالکی فقہاء اور حنبلی علماء میں سے ابوخطاب کے خیال میں یہ جائز نہیں۔ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما اور حضرت حسن رحمہ اللہ سے بھی یہی مروی ہے جیسا کہ ابن قدامہ نے کہا ہے۔‘‘[1] جبکہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے نزدیک بیعانے کے لین دین میں کوئی حرج نہیں ہے۔ چنانچہ علامہ ابن قدامہ حنبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "قال أحمد لا بأس به" ’’امام احمد کہتے ہیں کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔‘‘[2] علامہ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ کا رجحان بھی اس کے حق میں ہے۔[3] سعودی عرب کے سابق مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ بھی اسے جائز قراردیتے ہیں: "لا حرج في أخذ العربون في أصح قولي العلماء إذا اتفق البائع والمشتري على ذلك ولم يتم البيع" ’’علماء کے دواقوال میں سے صحیح قول کے مطابق جب بائع اور مشتری اس پر اتفاق کرلیں اور بیع مکمل نہ ہوتو بیعانہ ضبط کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔‘‘[4] اسی طرح ان کی سربراہی میں قائم دائمی فتوی کمیٹی نے بھی ایک استفتاء کے جواب میں اسے جائز کہا ہے: "بيع العربون جائز، وهو أن يدفع المشتري للبائع أو وكيله مبلغًا من المال أقل من ثمن المبيع بعد تمام عقد البيع، لضمان المبيع؛ لئلا
[1] ۔ج 10 ص 100. [2] ۔المغني فصل في بيع العربون. [3] ۔اعلام الموقعين فصل الحيلة في الصلح عن الحال۔ [4] ۔فتاوي اسلاميه ج 2 ص 837۔