کتاب: مچھلی کے پیٹ میں - صفحہ 9
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس رات میں نے بازار میں بھیک مانگنے والے ایک بھکاری کا مذاق اڑایا اور انتہائی خطرناک حرکت یہ کی کہ اس کے سامنے اپنا پاؤں کر کے اسے ایسا اڑنگا لگایا کہ وہ بیچارہ ٹھوکر کھا کر گرا اور پھر بیٹھ کر اپنے سر کو یوں پھیرنے لگا کہ گویا یہ کہہ رہا ہو کہ معلوم نہیں میں اسے کیا کہوں؟ میرے زور دار قہقہوں سے سارا بازار گھونج اٹھا… اور میں حسبِ عادت اس رات بھی بہت دیرسے گھر لوٹا ..
کیا دیکھتا ہوں کہ میری بیوی میرے انتظار میں بیٹھی ہے اور اس کی حالت انتہائی قابلِ ترس نظر آرہی تھی۔اس نے کپکپاتی اور ٹوٹتی ہوئی آواز میں مجھ سے مخاطب ہوکر کہا:راشد! تم کہاں تھے؟
میں نے اس کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا:میں مریخ پر تو نہیں تھا، اپنے دوستوں کے ساتھ ہی تھا۔نقاہت وکمزوری کے آثار اس پر واضح نظر آرہے تھے۔اس نے رندھی ہوئی آواز سے کہا:
راشد! میں بہت تکلیف میں ہوں۔لگتا ہے بچے کی ڈلیوری کا وقت بہت ہی قریب آچکا ہے۔
یہ کہتے کہتے ایک خاموش آنسو اُس کے رخسار پر ڈھلک آیا۔اب میرے اندر یہ احساس جاگنے لگا کہ میں نے اپنی بیوی کے بارے میں انتہائی بے پروائی سے کام لیا ہے۔جبکہ میرا فرض یہ تھا کہ میں اس کا خیال رکھتا… خصوصاً جبکہ وہ نویں مہینے میں تھی۔
میں فوراً اسے ہسپتال لے گیا، اسے میٹرنٹی وارڈ()کے لیبر روم میں داخل کر لیا گیا، جہاں وہ کئی گھنٹے تکالیف و آلام