کتاب: مچھلی کے پیٹ میں - صفحہ 52
اب پیچھے رہ جانے والے لوگ آگئے۔ہر کوئی اپنا اپنا عذر اور مجبوری پیش کرتا۔ہر کوئی اپنے آپ کو سچا ثابت کر نے کے لیے قسمیں کھارہا تھا۔پیچھے رہ جانے والوں کی تعداد اسّی سے کچھ زیادہ تھی۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ظاہری عذر و معذرت کو قبول فرما لیا۔ان کے لیے دعاے مغفرت بھی فرمائی اور ا ن کے اندرونی بھیدوں کو اللہ کے سپرد کر دیا۔
جب سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ حاضرِ خدمت ہوئے اور انھوں نے خدمتِ اقدس میں سلام کیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف دیکھا۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غضب و غصے کو ظاہر کرنے والا تبسم فرمایا اور ان سے مخاطب ہو کر فرمایا:
’’ادھر آؤ۔‘‘
سیدنا کعب رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھ گئے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:
’’تمھیں کس چیز نے پیچھے رکھ لیا تھا؟ کیا تم نے سواری کا اونٹ نہیں خرید رکھا تھا؟‘‘
انھوں نے عرض کیا:جی ہاں۔! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’تو پھر تمھیں کس چیز نے پیچھے روکے رکھا؟‘‘
سیدنا کعب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:
اے اﷲکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ کی قسم! اگر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا دنیا والوں میں سے کسی دوسرے شخص کے پاس بیٹھتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دیکھتے کہ میں کس طرح بہانہ کرکے اس کے غصے کو ٹھنڈا کر لیتا۔کیونکہ مجھے بات کرنے اور سامنے والے کو قائل کرنے کا ڈھنگ عطا کیا گیا ہے۔لیکن اللہ کی