کتاب: مچھلی کے پیٹ میں - صفحہ 45
سارہ کو فوری طور پرشفاے کامل عطا کر دے۔ میں گھر پہنچ گیا۔دروازہ کھولا اور اپنی اہلیہ کو آواز دی۔مجھے کوئی جواب نہ ملا۔میں جلدی جلدی بیڈ روم میں داخل ہوا۔میری بیوی اپنی جگہ پر سکڑی سمٹی بیٹھی رو رہی تھی۔مجھے دیکھتے ہی چلا اُٹھی اور روتے ہوئے کہا: سارہ فوت ہوگئی ہے۔مجھے اس کی بات سمجھ نہ آئی۔میں سارہ کی طرف کھنچا چلا گیا اور اسے اپنے سینے سے لگا لیا۔میں نے اسے اپنی گود میں بھرنا چاہا، مگر اس کا ہاتھ زمین کی طرف لٹک گیا۔اس کا جسم بہت ٹھنڈا ہو چکا تھا۔یہی حال اس کے ہاتھ پاؤں کا تھا۔اس کی نبض۔اس کی سانس۔مجھے کچھ بھی سنائی نہیں دے رہا تھا۔میں نے اس کے ماتھے پر نظر ڈالی۔ایک نور چمک رہا تھا۔جیسے وہ کوئی چمک دار ستارہ ہو۔میں نے اسے بیدار کرنے کی کوشش کی۔اسے ہلایا۔زور زور سے جھنجھوڑا۔اس کی ماں سارہ سارہ کہہ کر چلائی اور کہنے لگی کہ سارہ فوت ہو چکی ہے۔پھر وہ پُھوٹ پُھوٹ کر رونے لگی۔ میں جو کچھ دیکھ رہا تھا مجھے اس کا یقین نہیں آرہا تھا۔یوں لگ رہا تھا جیسے میں کوئی خواب دیکھ رہا ہوں۔میری آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی اور میں سسکیاں بھرنے لگا۔میں اس کے خوبصورت چہرے اور نرم ونازک بالوں کو دیکھ رہا تھا۔اور اس کا ننھا مناسا منہ چوم رہا تھا۔مجھے اس وقت بھی یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ کہہ رہی ہو:ابو جان! یہ بری بات ہے۔ساتھ ہی مجھے یاد آگیا کہ یہ ایک آزمایش ہے، چناں چہ میں نے ان کلمات کو دہرانا شروع کر دیا۔ ((لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ))