کتاب: مچھلی کے پیٹ میں - صفحہ 44
طلب کرتے۔بعض نے تو مجھے کہا:آج یہ کیسی نشاط و سرگرمی ہے؟ میں نے جواب دیا:یہ مسجد میں نمازِ فجر باجماعت ادا کرنے کی برکت ہے۔ بیچارہ ابراہیم۔دفتری کام کا زیادہ تر بوجھ وہی اٹھایا کرتا تھا۔مجھے تو سونے کے سوا کوئی فکرہی نہ ہوتی تھی۔لیکن اس نے میری اس حرکت پر کبھی ناراضی دکھلائی اور نہ ہی کبھی افسرانِ بالا سے میری شکایت کی۔وہ کتنا اچھا انسان ہے۔یہ دراصل اس ایمان کا کرشمہ ہے جس کی حلاوت وشیرینی دلوں میں رچ بس گئی ہو۔ڈیوٹی ٹائم کا اکثر حصہ گزر گیا اور مجھے کوئی تھکاوٹ محسوس نہ ہوئی۔ ابراہیم نے مجھ سے مخاطب ہو کر کہا:احمد! اب تمھارا گھر چلے جانا ضروری ہے، کیونکہ تم کل رات سے سوئے نہیں ہو۔تمھارا بقیہ کام میں کر دوں گا۔میں نے گھڑی پر نگاہ ڈالی۔نمازِ ظہر کی اذان میں اب صرف چند منٹ ہی باقی تھے۔میں نے فیصلہ کر لیا کہ میں دفترمیں ہی رہوں گا۔مؤذّن نے اذان کہی۔میں فوری طور پر مسجد پہنچ گیا۔صفِ اول میں جگہ حاصل کی اور بیٹھ گیا۔اب مجھے اپنے اُن ایام پر بہت ہی ندامت محسوس ہونے لگی جب میں نماز کے وقت سب چھوڑ چھاڑ کر باہر بھاگ جایا کرتا تھا۔نمازِ ظہرکے بعد میں گھر کی طرف چل دیا۔راستے میں مجھے عجیب قلق و اضطراب کی کیفیت نے گھیر لیا۔معلوم نہیں سارہ کا کیا حال ہے۔؟ مجھے گھٹن سی محسوس ہونے لگی۔میں سمجھ نہ سکا کہ اس کا سبب کیا ہے۔؟ مجھے یوں محسوس ہونے لگا جیسے آج دفتر سے گھر تک کا یہ راستہ بہت ہی طویل ہو گیا۔میرے خوف اور پریشانی میں اضافہ ہونے لگا۔میں نے بے اختیار ہوکر آسمان کی طرف نگاہیں اٹھائیں اور اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی کہ وہ میری بیٹی