کتاب: مچھلی کے پیٹ میں - صفحہ 43
زیادہ طنز و تشنیع کی کاٹ تھی۔میں نے ان کی باتوں کی پرواہ نہ کی۔میری نگاہیں دروازے پر لگ گئیں۔مجھے ابراہیم کی آمد کا شدت سے انتظار تھا۔ یہ بھی دفتر میں میرا ساتھی ہے۔اس نے ہمیشہ مجھے پندو نصیحت کی۔وہ بہت ہی اعلیٰ اخلاق کا مالک شخص ہے۔حسنِ معاملہ تو اس کی فطرت تھی۔آخرکار ابراہیم پہنچ گیا۔میں اپنی جگہ سے اٹھا اور اس کا استقبال کیا۔اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔اس نے مجھے پوچھا:تم احمد ہی ہو ناں..؟ میں نے کہا:ہاں! میں احمد ہی ہوں۔ میں نے اس کا ہاتھ کھینچا اور کہا:میں تم سے بات کرنا چاہتا ہوں۔ اس نے کہا: کوئی بات نہیں۔ہم دفتر میں بیٹھ کر ہی بات کر لیتے ہیں۔ میں نے کہا: نہیں.. ہم ریسٹ ہال()میں چل کر بیٹھتے ہیں۔ابراہیم خاموش ہوگیا اور میری باتوں کو بغور وہمہ تن گوش ہو کر سننے لگا۔میں نے اسے کل رات کا سارا ماجرا کہہ سنایا۔اس کی آنکھیں آنسوؤں سے ڈبڈبا اُٹھیں۔اور ساتھ ہی اس کے چہرے پر خوشی کی مسکراہٹ کھیلنے لگی۔اس نے مجھ سے کہا: یہ نور ہے، جس نے تیرے دل کو روشن کر دیا ہے، اب اسے گناہوں اور نافرمانیوں سے بجھا نہ دینا۔ اگر چہ میں رات بھر سویا نہیں تھا۔پھر بھی آج کا دن بڑا ہی پُرنشاط اور کیفوسرور سے معمور تھا۔میں کام کی لگن میں مگن تھا اور مسکراہٹ میرے چہرے پر کھیلتی رہی۔اپنے کام کے لیے آنے والے لوگ میری طرف آتے اور تعاون