کتاب: مچھلی کے پیٹ میں - صفحہ 41
میں نے سونے کی بہت کوشش کی۔لیکن کامیاب نہ ہو سکا۔وقت بڑی تیزی کے ساتھ گزر گیا۔میں نے ماضی کی تمام کرتوتوں کو باری باری تصور میں لا کر اپنے سامنے پیش کیا۔مگر ہر ایک کے تصور پر میں اپنی بیٹی کی گھونجتی ہوئی آواز سنتا:اللہ سے ڈریں۔اللہ سے ڈریں۔عین اس وقت اذانِ فجر کی صدا فضاؤں میں بلند ہوئی۔میرا جسم لرز اُٹھا۔میرا رواں رواں کانپ رہا تھا۔میرے ہاتھ پاؤں پر گویا رعشہ طاری ہو چکا تھا۔اتنے میں مؤذّن نے یہ کلمات دہرانے شروع کر دیے: ’’اَلصَّلَاۃُ خَیرٌ مِّنَ النَّوْمِ‘‘ ’’نماز نیند سے بہت بہترہے۔‘‘ اس پر بے اختیار میری زبان سے نکل رہا تھا:تم سچ کہہ رہے ہو۔نماز نیند سے بہتر ہے۔اُفوووہ۔میں گذشتہ تمام سال۔ایک طویل عرصہ تک سویا ہی پڑا رہا۔پھر میں اٹھا، وضو کیا اور مسجد کی طرف چل دیا۔میں مسجد کے راستے پر یوں چل رہا تھا گویا میں اسے جا نتا ہی نہیں۔یوں لگ رہا تھا جیسے نسیمِ صبح مجھ پر غصہ جھاڑ رہی ہو اور زبانِ حال سے کہہ رہی ہو۔تم آج تک کہاں تھے۔؟ ایسے لگ رہا تھا جیسے آسمان کی پہنائیوں میں محوِپرواز پرندے کہہ رہے ہوں:خوش آمد۔اس طویل عرصہ سے سوئے پڑے رہنے والے کو۔جو آخر کار بیدار ہو ہی گیا ہے۔میں مسجدمیں داخل ہوا۔نمازِ فجر سے پہلے دو سنتیں پڑھیں اور پھر بیٹھ کر قرآنِ کریم کی تلاوت کرنے لگا۔تلاوت کرتے ہوئے میری زبان اٹک اٹک کر چل رہی تھی۔ایک عرصہ ہوا تھا کہ میں نے کبھی تلاوت نہیں کی تھی۔مجھے یوں محسوس ہوا جیسے قرآن مجھ سے پوچھ رہا ہو:تونے کئی سالوں سے مجھے کیوں چھوڑ رکھا تھا۔؟ کیا میں تیرے رب کا کلام نہیں ہوں۔؟