کتاب: مچھلی کے پیٹ میں - صفحہ 40
بالکل خاموش رہ گیا۔ایک لفظ بھی نہ بول پایا۔وہ میرے قریب آگئی۔پہلے اس نے بڑے پُرسکون انداز سے مجھے دیکھا اور پھر کہا:
ابو جان! اللہ سے ڈریں۔ابو جان! اللہ سے ڈریں۔اتنا کہہ کر وہ چل پڑی اور جاتے ہوئے دروازہ بندکر گئی۔
میں نے اسے آواز دی:سارہ! اس نے کوئی جواب نہ دیا۔
اب میں اٹھ کر اس کے پیچھے بھاگا۔مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ میری بیٹی ہی ہے۔؟ میں نے بیڈ روم()کا دروازہ کھولا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ میرے اندر داخل ہونے سے پہلے ہی بستر پر چڑھ کر اپنی ماں کی گود میں لیٹ چکی تھی۔وہ یقینا وہی تھی۔میں دوبارہ ٹی وی لاؤنج کی طرف لوٹ گیا اور جاکر ٹی وی بند کر دیا۔میری بیٹی کی آوازسے کمرہ گونج رہا تھا:
ابو جان! اللہ سے ڈریں۔ابو جان! اللہ سے ڈریں۔
میرے جسم پر کپکپی طاری ہو گئی۔میں سر سے پاؤں تک پسینا پسینا ہو گیا۔پتا نہیں کہ مجھے کیا ہو گیا تھا۔؟
مجھے اس کی آواز کے سوا کچھ سنائی نہ دے رہا تھا۔اس کی صورت میری آنکھوں میں یوں بس گئی کہ مجھے کچھ اور نظر ہی نہیں آرہا تھا۔اس کی آواز نے ان تمام پردوں کو چاک کر دیا جو ایک طویل عرصہ سے میرے سینے اور دماغ پر پڑے ہوئے تھے۔ترکِ نماز۔اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانیاں۔تمباکو نوشی۔گندی فلمیں۔میری بیٹی نے جھٹک کر مجھے خوابِ غفلت سے بیدار کر دیا۔میرے دل کی دھڑکنیں تیز تیز چلنے لگیں۔عجیب بے کسی کی کیفیت میں مَیں زمین پر ڈھیر ہو گیا۔