کتاب: مچھلی کے پیٹ میں - صفحہ 18
ہوگئی ہیں جو میری بیوی کی آنکھوں سے جھلکا کرتی تھیں۔میرے بیٹے سالم کے ہونٹوں پر ہر وقت تبسّم و مسکراہٹ کھیلتی رہتی ہے.. جو اسے دیکھے وہ سمجھتا ہے کہ جیسے اسے پوری دنیا اور اس کی تمام تر دولتیں مل گئی ہیں.. میں اللہ تعالیٰ کی اِن نعمتوں پر اس کا بہت ہی زیادہ شکر ادا کرتا ہوں.. ایک دن میرے کچھ ساتھیوں نے پروگرام بنایا کہ دور دراز اور پسماندہ علاقوں کا سفر کیا جائے اور وہاں کے لوگوں میں صحیح عقیدہ کی طرف دعوت و تبلیغ اور خالص کتاب وسنت پر مبنی دینی تعلیمات کی نشر و اشاعت کا فریضہ سر انجام دیا جائے۔میں شروع میں کچھ متردّد رہا۔ پھر میں نے اللہ سے راہنمائی طلب کرنے کے لیے نمازِ استخارہ پڑھی اور اپنی اہلیہ سے بھی مشورہ طلب کیا.. مجھے توقع تھی کہ وہ انکار کر دے گی۔لیکن معاملہ اس کے سراسر برعکس نکلا! وہ میری بات سن کر بہت ہی خوش ہوئی۔بلکہ فرحت ومسرّت کے اظہار کے ساتھ ساتھ ہی اس نے اس سلسلہ میں میری خوب ہمت بندھائی اور میری حوصلہ افزائی کی۔وہ اس سے پہلے مجھے اس حالت میں دیکھا کرتی تھی کہ میں فسق وفجور پر مبنی اور گناہ بردوش سفروں کے لیے اس کے مشورے کے بغیر ہی نکل کھڑا ہوا کرتا تھا۔ اب میں اپنے لاڈلے سالم کی طرف چل دیا۔اسے میں نے بتایا کہ میں سفر میں جانے والا ہوں۔اس نے مجھے اپنے دونوں ننھے ننھے ہاتھوں میں سمیٹ لیا اور فرحاں و شاداں مجھے الوداع کیا۔میں نے ساڑھے تین ماہ کا عرصہ اپنے گھر سے باہر گزارا۔اس دوران میں مجھے جب جب بھی موقع ملتا، میں اپنی بیوی سے فون پر رابطہ کرتا اور اپنے بیٹوں