کتاب: مچھلی کے پیٹ میں - صفحہ 17
نے اس کی طرف دیکھا اور اندر ہی اندر کہنے لگا … تم نابینا نہیں ہو… بلکہ دراصل اندھا تو میں ہوں، جو ان فاسق و فاجر دوستوں کے پیچھے کھِچا چلا جاتا رہا جو مجھے نارِ جہنم کی طرف گھسیٹتے لیے جارہے تھے۔
مسجد سے ہم باپ بیٹا دونوں گھر لوٹے تو دیکھا کہ میر ی بیوی سالم کے بارے میں بڑی تشویش میں مبتلا تھی۔لیکن اب اس کی تشویش خوشی کے جذبات سے مغلوب ہو کر آنسوؤں کی جھڑی کی شکل اختیار کر گئی کیونکہ اسے پتا چلا کہ آج سالم کے ساتھ میں نے بھی نماز جمعہ ادا کی ہے۔وہ دن اور آج کا دن۔میں نے کبھی مسجد میں نمازِ باجماعت قضا نہیں ہونے دی۔میں نے اپنی بُر ی سوسائٹی کو چھوڑ دیا اور بُرے ساتھیوں سے ناتا توڑ لیا۔ان کی بجائے اب میری دوستی اُن اچھے اور نیک لوگوں سے ہو چکی تھی جن سے میرا ملنا جلنا مسجد میں ہوا۔ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کے بعد میں نے ایمان کی صحیح حلاوت و شیرینی پائی اور خوب مزہ چکھا۔ان سے میں نے وہ چیزیں سیکھیں جن سے مجھے دنیا داری نے غافل کر رکھا تھا۔
میں نے کبھی کوئی حلقۂ ذکر و درس نہیں چھوڑا اور نہ ہی میں نے کبھی نمازِ وتر و تہجد قضا ہونے دی ہے۔اور صرف ایک ہی مہینے میں میں نے کئی مرتبہ پورے قرآنِ کریم کو ختم کیا۔میں اپنی زبان کو ہمیشہ ذکرِ الٰہی سے تر رکھتا ہوں تاکہ شاید اللہ تعالیٰ اسی طرح ہی میرا دین سے دور رہنا، لوگوں سے تمسخر کرنا اور ان کا مذاق اڑانا مجھے بخش دے۔
میں نے محسوس کر لیا ہے کہ میں اب اپنے افرادِ خانہ سے پہلے کی نسبت بہت ہی قریب ہو گیا ہوں۔اب وہ خوفزدہ سی اور ڈری ہوئی نظریں غائب