کتاب: مچھلی کے پیٹ میں - صفحہ 15
سالم یہ بات سن کر دم بخود سا رہ گیا… اسے یقین نہیں آرہا تھا۔وہ سمجھا کہ میں شاید اس کا مذاق اڑا رہا ہوں… وہ لمحہ بھر کے لیے خاموش رہا اور پھر اس نے رونا شروع کر دیا… میں نے اپنے ہا تھوں کے ساتھ اس کی آنکھوں سے برسنے والے آنسو پونچھے… اور پھر اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ میں نے ارادہ کیا کہ میں اسے گاڑی میں بٹھا کر مسجد پہنچاؤں… مگر اس نے یہ کہتے ہوئے گاڑی میں بیٹھ کر جانے سے انکار کر دیا: ’’مسجد تو قریب ہی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ اپنے قدموں پر چل کر مسجد جاؤں، کیونکہ ہر قدم ہر نیکی ملتی ہے۔‘‘ اللہ کی قسم! اس نے مجھے یہی کہا … میں نہیں جانتا کہ مسجد میں آخری مرتبہ کب داخل ہوا تھا، لیکن یہ پہلی بار تھا کہ میں مسجد میں داخل ہوتے خوف اور ندامت محسوس کر رہا تھا۔میرا یہ خوف وندامت گذشتہ کئی سالوں میں مجھ سے سرزد ہونے والی کوتاہی کی وجہ سے تھے… مسجد نمازیوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی اور اپنی تنگ دامانی کا شکوہ کر رہی تھی، تاہم مجھے سالم کے لیے صفِ اول میں جگہ مل گئی۔ ہم دونوں نے اکٹھے ہی خطبہ جمعہ سنا اور اس نے میرے پہلو میں ہی نماز جمعہ ادا کی… لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ سالم نے میرے پہلو میں نہیں بلکہ میں نے سالم کے پہلو میں نماز ادا کی… نماز ادا کر چکے تو سالم نے مجھ سے قرآنِ کریم طلب کیا… مجھے بڑا تعجب ہوا… میں دل ہی دل میں سوچنے لگا کہ یہ تو نابینا ہے، یہ قرآنِ کریم کی تلاوت کیسے کرے گا؟ قریب تھا کہ میں اس کی بات کو سنی اَن سنی کر دوں لیکن پھر میں نے