کتاب: مچھلی کے پیٹ میں - صفحہ 12
اس کا گھسٹنا بھی کچھ عجیب قسم کا تھا… اس کی عمر ایک سال ہونے کو آئی تھی اور اس نے چلنے کی کوشش شروع کی تو ہمیں ایک نئے انکشاف کا سامنا کرنا پڑا کہ وہ نابینا ہونے کے ساتھ ساتھ لنگڑا بھی ہے… اب تو وہ مجھے پہلے سے بھی زیادہ بوجھ محسوس ہونے لگا تھا۔
اس کے بعد میری بیوی نے دو دوسرے بیٹوں عمر اور خالد کو بھی جنم دیا… سالوں پہ سال گزرتے گئے… سالم بڑا ہو گیا اور اس کے دونوں بھائی بھی بڑے ہوگئے… میں گھر میں بیٹھے رہنا پسند نہیں کرتا تھا… بلکہ ہمیشہ اپنے دوستوں کے ساتھ گھر سے باہر ہی زیادہ وقت گزارہ کرتا تھا۔
حقیقت تو یہ ہے کہ میں ان کے ہاتھوں میں کھلونا بن کر رہ گیا تھا… میری بیوی میری اصلاح سے کبھی مایوس نہیں ہوئی …وہ ہمیشہ میری ہدایت اور سدھرنے کی دعائیں کرتی رہی اور میرے اس غافلانہ رویے پر اس نے ناراضگی کا اظہار کبھی نہیں کیا۔
البتہ جب کبھی سالم کے بارے میں میری لاپرواہی محسوس کرتی اور دوسرے بچوں سے میری محبت و شفقت دیکھتی… تو اس دو رُخی پر وہ حزن و ملال میں مبتلا ہو جاتی… سالم بڑا ہوتا گیا اور اس کے ساتھ ہی میرا غم بھی بڑھتا گیا۔جب میری بیوی نے مطالبہ کیا کہ میں سالم کو اپاہج()بچوں کے اسپیشل سکول میں داخل کروا دوں تو میں نے اسے منع نہیں کیا… مجھے سالوں پہ سال گزرتے چلے جانے کا کوئی احساس تک بھی نہیں ہوا، شب و روز ایک ہی طرز پر گزرتے جا رہے تھے۔کام کرنا، سونا، کھانا اور راتوں کو بے مقصد جاگنا۔جمعہ کا ایک دن تھا کہ میں دوپہر گیارہ بجے نیند سے بیدار