کتاب: مچھلی کے پیٹ میں - صفحہ 11
اڑنگا لگا کر گرایا اور لوگوں کو اس پر ہنسایا تھا۔ سبحان اللہ! سچ ہے:’’جیسا کرنا، ویسا بھرنا۔‘‘ اور ’’جو بوو گے، سو کاٹو گے۔‘‘() ْْٓتھوڑی دیر کے لیے شدّتِ غم سے میری زبان گنگ ہو گئی… مجھے کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا کہ میں کیا کہوں؟… پھر مجھے میری بیوی اور بیٹا یاد آگئے… میں نے ڈاکٹر صاحبہ کے اس لطیف اندازِ نصیحت اور ملائم گفتگو پر اس کا شکریہ ادا کیا اور اپنی اہلیہ کو دیکھنے کے لیے چل دیا… میری بیوی غمگین نہیں ہوئی… وہ اللہ کی قضا و قدر پر ایمان رکھنے والی اور اس پر رضا مند تھی۔اس نے ہمیشہ مجھے لوگوں کا مذاق اڑانے سے باز رہنے کی ہی نصیحت کی… وہ ہمیشہ مجھے یہی کہا کرتی کہ لوگوں کی غیبت نہ کیا کریں… اور نہ ہی کسی کی چغلی کھایا کریں۔ بیوی کو ڈ سچارج()کروا کر ہم ہسپتال سے باہر نکلے اور سالم بھی ہماری گود میں تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ میں نے اپنے اس بیٹے کی کبھی پرواہ نہ کی تھی… میں یہی سمجھتا جیسے کہ وہ گھر میں موجود ہی نہیں۔ جب کبھی وہ کسی وجہ سے زور زور کے ساتھ روتا تو میں بیڈ روم سے بھاگ نکلتا اور ڈرائنگ روم میں جا سوتا… تاہم میری اہلیہ اس کا بہت خیال رکھتی تھی اور اسے بہت ہی لاڈ و پیار دیتی تھی… جہاں تک میری ذات کا معاملہ ہے، میں اس سے نفرت تو نہیں کرتا تھا لیکن میں اس سے محبت بھی نہ کرسکا… سالم بڑا ہوگیا… اب اس نے گھِسٹ کر چلنا شروع کر دیا تھا…