کتاب: مسلمان کو موت کے بعد فائدہ پہنچانے والے کام - صفحہ 16
حقدار ہے کہ اس کا حق ادا کیا جائے‘‘۔[متفق علیہ] حضرت بریدہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ:’’ایک عورت نے کہا:’’یا رسول اﷲ!میری ماں کا انتقال ہوگیا اور وہ حج نہیں کرسکی،اگر میں اس کی جانب سے حج کروں تو اس کی جانب سے حج ادا ہوجائے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ہاں‘‘۔[مسلم] شیخ الإسلام امام إبن تیمیہ رحمہ اﷲ فرماتے ہیں: ‘’ان صحیح احادیث میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے میت کی جانب سے فرض حج بھی ادا کرنے کا حکم دیا اور نذر مانا ہوا حج بھی،جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزوں کا حکم دیا،اور جسے اس کا حکم دیا گیا وہ اس کی اولاد ہو سکتی ہے اور بھائی وغیرہ بھی،اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے میت پر قرض کے مشابہ قرار دیا،قرض تو ہر کسی کی جانب سے ادا کرنا درست ہے،لیکن(میت کی جانب سے )حج اکثر علماء کے نزدیک جائز ہے،اس مسئلہ میں ان کے درمیان صرف معمولی اختلاف ہے۔[مجموع الفتاویٰ:24؍310-311] امام إبن قیم رحمہ اﷲ فرماتے ہیں: ‘’خلاصہ یہ کہ اگر میت نے حج کرنے میں زندگی کی آخری سانس تک کوتاہی کی،اور غفلت وسستی کی بنا پرحج نہیں کیا،یا زکاۃ نہیں دی،تو اس کی جانب سے نہ حج کیا جائے گا اور نہ ہی زکاۃ ادا کی جائے گی،اور اگر کسی نے کیا تب بھی اس کو کچھ فائدہ نہیں پہنچے گا،کیونکہ خود میت نے اس فریضہ کو ادا کرنے میں موت تک کوتاہی کی‘‘[اختصار از:تہذیب السنن:3؍276]