کتاب: لشکر اسامہ رضی اللہ عنہ کی روانگی - صفحہ 99
مذکورہ چار حضرات سے قرآن حکیم کی تعلیم حاصل کرنے کی تخصیص پر تبصرہ کرتے ہوئے حافظ ابن حجر وضاحت کرتے ہیں: ’’ان چار صحابہ سے قرآن حکیم کی تعلیم حاصل کرنے کے سلسلے میں تخصیص اس لیے کی گئی،کہ انھیں قرآن مجید کے علم پر بہت زیادہ دسترس حاصل تھی،اس کی ادائیگی میں ان کا طریق کار بڑا مضبوط تھا یا اس لیے،کہ انھوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست قرآن کریم پڑھنے کے لیے دیگر کام چھوڑ کر پورا وقت دیا تھا اور پھر اس کی تعلیم میں نمایاں کردار ادا کیا۔اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے قرآن حکیم کا علم حاصل کرنے کا خاص طور پر حکم دیا۔اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں،کہ دیگر صحابہ کرام نے قرآن کریم کو جمع نہ کیا تھا۔‘‘[1] رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی عمر انتالیس سال تھی۔[2] ان کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا،کہ:’’جسے یہ پسند ہے،کہ وہ قرآن حکیم اس انداز سے تروتازہ پڑھے،جیسے وہ نازل ہوا ہے،تو وہ ابن ام عبد کا اندازِ قرأت اختیار کرے۔‘‘[3] ان چار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی عمر رسول
[1] فتح الباري ۷/۱۰۲۔ [2] وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت میں ۳۲ ہجری میں ساٹھ سال سے زیادہ عمر پاکر فوت ہوئے۔(ملاحظہ ہو:فتح الباري ۷/۱۰۳)۔اس حساب سے ہجرت کے وقت ان کی عمر ۲۸ سال کے لگ بھگ تھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت انتالیس برس کی ہوئی۔ [3] بروایت حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ،المسند،جزء حدیث نمبر ۴۲۵۵،۶/۱۲۸۔۱۲۹۔شیخ احمد شاکر نے اسے[صحیح السند]قرار دیا ہے۔(حاشیہ المسند ۶/۱۲۸)۔