کتاب: لشکر اسامہ رضی اللہ عنہ کی روانگی - صفحہ 96
امورِ جاہلیت کی ہر چیز میرے قدموں کے نیچے رکھ دی گئی ہے۔دورِ جاہلیت کے خون بہا کالعدم قرار دیے گئے ہیں۔ ہمارے مقتولین میں سے پہلا خون،جو میں معاف کرتا ہوں،وہ ربیعہ بن حارث کے بیٹے [1]کا ہے،جو قبیلہ بنوسعد میں دودھ پی رہا تھا اور قبیلہ ہذیل نے اسے قتل کردیا تھا۔ دورِ جاہلیت کا سود کالعدم ہوچکا ہے،پہلا سود جسے میں کالعدم قرار دیتا ہوں،وہ عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ کا سود ہے۔آج سے یہ سب ختم ہے۔‘‘[2] امام نووی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان:’’أَ لَا کُلُّ شَيْئٍ … فَإِنَّہُ مَوْضُوْعٌ کُلُّہٗ۔‘‘ کی شرح میں لکھا ہے،کہ:’’(آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے)اس فرمان سے زمانۂ جاہلیت کے وہ تمام افعال اور سودے باطل قرار پاتے ہیں،جن کے تحت ابھی قبضہ نہ لیا گیا تھا‘‘ اسی طرح دورِ جاہلیت کے قتل کا قصاص بھی نہیں ہوگا۔‘‘ امام نووی مزید فرماتے ہیں: ’’امام وقت یا وہ شخص جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیتا ہو،اس کے لیے ضروری ہے،کہ وہ اپنی ذات اور اہل خانہ سے ابتدا کرے۔اس سے اس کی بات پر عمل کیے جانے کے امکانات بہت بڑھ جاتے ہیں۔‘‘[3] خلاصۂ کلام یہ ہے،کہ حضرت ابوبکر کے لشکر اسامہ رضی اللہ عنہما کو روانہ کرنے کے واقعہ میں ایک سبق یہ ہے،کہ انھوں نے اپنی دعوت اور عمل میں مطابقت کا خاص خیال رکھا۔انھوں نے اس معاملے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کا حق ادا کردیا۔
[1] ’’ابن ربیعہ بن حارث‘‘ میں جس حارث کا تذکرہ ہے،وہ عبد المطلب کا بیٹا ہے۔(ملاحظہ ہو:شرح نووی ۸/۱۸۲)۔ [2] صحیح مسلم،کتاب الحج،باب حجۃ النبی صلي اللّٰهُ عليه وسلم،جزء حدیث نمبر ۱۴۷۔(۱۲۱۸)،۲/۸۸۶۔۸۸۷۔ [3] شرح النووي ۸/۱۸۲۔