کتاب: لشکر اسامہ رضی اللہ عنہ کی روانگی - صفحہ 93
﴿یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ کَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰہِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ﴾[1] [اے ایمان والو!ٍتم وہ کہتے کیوں ہو،جو خود نہیں کرتے؟ اللہ کے ہاں بڑی ناراضی کا سبب ہے،کہ تم وہ کہو،جو خود کرتے نہیں ہو۔] آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس شخص کا برا انجام بیان کیا ہے،جس کا عمل اس کے قول کے مطابق نہ ہو۔امام بخاری نے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے،کہ وہ کہتے ہیں،کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’ایک شخص کو لایا جائے گا اور اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔وہ اس میں ایسے چکر لگاتا رہے گا،جس طرح چکی کا گدھا گھومتا رہتا ہے۔جہنمی اس کے اردگرد گھیرا ڈال لیں گے اور کہیں گے: ’’ارے فلاں!ٍکیا تو نیکی کا حکم دیتا اور برائیوں سے روکا نہیں کرتا تھا؟‘‘ وہ کہے گا:’’ہاں!ٍمیں نیکی کا حکم دیتا تھا،لیکن خود نیکی نہیں کرتا تھا اور لوگوں کو برائیوں سے روکتا تھا،لیکن خود برائی کا ارتکاب کرتا تھا۔‘‘[2] حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنی دعوت کو عمل کے مطابق پیش کرنے کا جو اہتمام کیا،وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے کیا تھا۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم قول و فعل کی مطابقت کا خاص طور پر خیال فرماتے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مطہرہ میں اس کے بہت سے شواہد ملتے ہیں،جن میں سے تین درج ذیل ہیں: ۱: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو سونے کی انگوٹھی پہننے سے منع کرنے کا ارادہ فرمایا،تو پہلے اپنی سونے کی انگوٹھی کو پھینکتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ’’میں اسے ہرگز کبھی بھی
[1] سورۃ الصف / الآیتین ۲۔۳۔ [2] صحیح البخاري،کتاب الفتن،باب الفتنۃ التی تموج کموج البحر،حدیث نمبر ۷۰۹۸،۱۳/۴۸۔