کتاب: لشکر اسامہ رضی اللہ عنہ کی روانگی - صفحہ 92
لشکر ہونے کا عملاً اقرار ہے،کیونکہ انھیں ہمارے امام اعظم،قائد اعلیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امیرِ لشکر نامزد کیا تھا،تم ان کی امارت کو ہدفِ تنقید بنانے کی کس طرح جرأت کرتے ہو؟‘‘ ۲: حضرت ابوبکر دلی طور پر چاہتے تھے،کہ عمر رضی اللہ عنہما مدینہ طیبہ میں ان کے تعاون کے لیے موجود رہیں اور لشکر کے ساتھ نہ جائیں،اس کے لیے حضرت ابوبکر نے اسامہ رضی اللہ عنہ کو حکم نہیں دیا،بلکہ ان سے کہا،کہ اگر آپ مناسب سمجھیں،تو عمر کو میرے تعاون کے لیے یہاں رہنے دیں۔یہ حضرت ابوبکر کی جانب سے اسامہ کے امیرِ لشکر ہونے کا دوسرا عملی اعتراف تھا اور لشکر کے نام یہ پیغام تھا،کہ تم پر بھی ان کی اطاعت اور ان کی امارت کا اعتراف لازمی ہے۔ اس طرح حضرت ابوبکر نے اپنی دعوت کو عمل کے ساتھ وابستہ کرکے پیش کرنے کا اہتمام کیا اور اسی بات کا حکم اسلام نے دیا ہے۔ اللہ رب العزت نے ان لوگوں کو جھنجھوڑا ہے،جو لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہیں اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہیں۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَ تَنْسَوْنَ اَنْفُسَکُمْ وَ اَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْکِتٰبَ اَفَلَا تَعْقِلُوْن۔﴾[1] [کیا تم لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو،حالانکہ تم کتاب پڑھتے ہو،کیا تمہیں عقل نہیں؟] اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے طرزِ عمل کو ناپسند فرمایا،جو کہنے کے مطابق عمل نہیں کرتے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
[1] سورۃ البقرہ:/ الآیۃ ۴۴۔